Sunday, 30 November 2014

بوجھ اتنا ہے کہ خم جسم میں آیا ہوا ہے

بوجھ اتنا ہے کہ خم جسم میں آیا ہوا ہے
میں نے اِک خواب کو کاندھوں پہ اٹھایا ہوا ہے
تُو تو حیران ہے ایسے کہ ابھی دیکھا ہو
میں نے یہ زخم تو پہلے بھی دکھایا ہوا ہے
صبحِ کاذب کی ہوا میں یہ مہک کیسی ہے
ایسا لگتا ہے کوئی جسم نہایا ہوا ہے

ہمراہ سفر میں ہو سفر میں بھی نہیں ہو

ہمراہ سفر میں ہو، سفر میں بھی نہیں ہو
افسوس مِرے دل میں، نہ آنکھوں میں کہیں ہو
سنتے ہیں چمن میں ہو، گلابوں میں، سمن میں
آنکھوں میں جو بس جائے وہی ماہ جبیں ہو
کیا تم میں ہے ایسا جو مجھے پاس لگے ہو
لب ہو، مِری آنکھیں ہو، کہ ابروئے جبیں ہو

الزام ہم پہ صورتِ انعام ہی تو ہے

”ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے“
الزام ہم پہ صورتِ انعام ہی تو ہے
پیتے ہیں اہلِ غم جو مسلسل یہ رات دن
ساغر میں زندگی کا حسیں جام ہی تو ہے
کوئل کی کُوک میں جو ہے پوشیدہ ایک درد
میرے دلِ شکستہ کا پیغام ہی تو ہے

تشنگی نے سراب ہی لکھا

تشنگی نے سراب ہی لکھا
خواب دیکھا تھا، خواب ہی لکھا
ہم نے لکھا نصابِ تِیرہ شبی
اور بصد آب و تاب ہی لکھا
منشیانِ شہود نے تا حال
ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا

دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو

دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو
اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو
جو بھی ہے اس کو گنوا بیٹھا ہے
میں بھلا کیسے گنوا دوں اس کو
تجھ گماں پر جو عمارت کی تھی
سوچتا ہوں کہ میں ڈھا دوں اس کو

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے
اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے
ہم جو اب آدمی ہیں، پہلے کبھی
جام ہوں گے، چھلک گئے ہوں گے
وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہو گا
ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے

دل گماں تھا گمانیاں تھے ہم

دل گماں تھا، گمانیاں تھے ہم
ہاں میاں! داستانیاں تھے ہم
ہم سنے اور سنائے جاتے تھے
رات بھرکی کہانیاں تھے ہم
جانے ہم کس کی بُود کا تھے ثبوت
جانے کس کی نشانیاں تھے ہم

اک شہر رنگ و نور اجڑنے کا دکھ بھی تھا

اک شہرِ رنگ و نور اجڑنے کا دکھ بھی تھا
شاخِ نظر سے خواب کے جھڑنے کا دکھ بھی تھا
ہاتھوں کے آسماں پہ دھنک سی تو کِھل گئی
پر دل میں تتلیوں کو پکڑنے کا دکھ بھی تھا
کچھ تو شکستِ آئینہ، وجہِ ملال تھی
کچھ اپنے خد و خال بگڑنے کا دکھ بھی تھا

دل کی مشکل کبھی آساں نہیں ہونے دیتا

دل کی مشکل کبھی آساں نہیں ہونے دیتا
مجھ کو دشمن تہی داماں نہیں ہونےدیتا
میری آنکھوں پہ سدا ہاتھ رہے ہیں اس کے
وہ مِرے زخم نمایاں نہیں ہونے دیتا
دل، گراں بارئ احساس کا بیوپاری ہے
غم کو بازار میں ارزاں نہیں ہونے دیتا

Saturday, 29 November 2014

ہر گھر سے

ہر گھر سے

دن کے اجالوں میں
خداہائے کفر ساز و کفر نواز
پیتے ہیں سچ کا لہو
کہ وہ اجالوں کی بستی میں 
زندہ رہیں

بے انت سمندر

بے انت سمندر

آنکھ میں پانی
آبِ کوثر
شبنم
گل کے ماتھے کا جھومر
جَل، جَل کر 
دھرتی کو جیون بخشے

رام بھلی کرے گا

رام بھلی کرے گا


ہاتھ کے بدلے ہاتھ
سر کے بدلے سر
تھپڑ کے بدلے تھپڑ
پتھر کے بدلے پتھر
میر جعفر نے
مگر لوٹ لیا ہے

سورج ڈوب رہا ہے

سورج ڈوب رہا ہے

میں جو بھی ہوں
چاند اور سورج کی کرنوں پر
میرا بھی تو حق ہے
دھرتی کا ہر موسم
خدا کا ہر گھر
میرا بھی تو ہے

فریاد بھی ہے سوئے ادب اپنے شہر میں

فریاد بھی ہے سوئے ادب اپنے شہر میں
ہم پھر رہے ہیں مُہر بلب، اپنے شہر میں
اب کیا دیارِ غیر میں ڈھونڈیں ہم آشنا
اپنے تو غیر ہو گئے سب اپنے شہر میں
اب امتیازِ دشمنی و دوستی کہاں؟
حالات ہو گئے ہیں عجب اپنے شہر میں

جب اس زلف کی بات چلی

جب اس زلف کی بات چلی
ڈھلتے ڈھلتے، رات ڈھلی
ان آنکھوں نے لوٹ کے بھی
اپنے اوپر بات ناں لی
شمع کا انجام ناں پوچھ
پروانوں کے سات جلی

پابند گماں کفر ہے تسلیم و رضا بھی

پابندِ گماں کفر ہے تسلیم و رضا بھی
بے زار ہے اس دینِ تذبذب سے خدا بھی
دلدل کی طرح ہوں تو کبھی گرد کی صورت
راس آئی ہے مٹی کو کبھی آب و ہوا بھی
گر روشنی مہتاب کو خورشید نے دی ہے
پرتَو ہے کسی اور کا سورج کی ضیاء بھی

کہا عشق نے کہ میں جبر ہوں، مجھے اختيار نہ کيجئیے

کہا عشق نے کہ میں جبر ہوں، مجھے اختيار نہ کيجئیے
ميں فريب ہوں، مجھے کھائيے، مِرا اعتبار نہ کيجئیے
نہ ميں وقت ہوں نہ ميں بخت ہوں جسے آپ راہ ميں پائيے
اجی جائيے، مجھے ڈھونڈئيے، مِرا انتظار نہ کيجئیے
مجھے راز مان کے جانيے، مجھے بھید جان کے بوجھئیے
مگر اتنا جانتے بوجھتے، مجھے آشکار نہ کيجئیے

یوں نہ گلیوں میں پھرو کانچ کے پیکر لے کر

یوں نہ گلیوں میں پِھرو کانچ کے پیکر لے کر
لوگ حاسد ہیں، نکل آئیں گے پتھر لے کر
جبکہ ہم چُھو نہ سکیں ‌ دل سے لگا بھی نہ سکیں
کیا کریں گے تجھے اے مہرِ منور لے کر
تم ذرا چپکے سے سورج کو خبر کر دینا
رات آ جائے یہاں جب مہ و اختر لے کر

ایک بھی چھینٹ نہ اڑنے دی کہیں پانی کی

ایک بھی چِھینٹ نہ اڑنے دی کہیں پانی کی
ریت نے آپ سمندر کی نگہبانی کی
کانچ کے جسم پہ پہنی ہے قبا پانی کی
پھر بھی تہمت نہ لگے حسن پہ عریانی کی
زندگی کاہشِ بے سود کا خمیازہ ہے
عمر بھر ہم نے پس انداز پشیمانی کی

وہ جو برباد مکانوں کے مکیں ہوتے تھے

وہ جو برباد مکانوں کے مکیں ہوتے تھے
یہ جو اونچی سی عمارت ہے، یہیں ہوتے تھے
کیوں نہ پہلے کِیا، اظہارِ محبت تم نے
تم بھی ہوتے تھے یہیں، ہم بھی یہیں ہوتے تھے
ترک ہے سلسلۂ بیعتِ آشفتہ سری
قیس کے کتنے ہی سجادہ نشیں ہوتے تھے

ان گھروں میں جہاں مٹی کے گھڑے رہتے ہیں

ان گھروں میں جہاں مٹی کے گھڑے رہتے ہیں
قد میں چھوٹے ہوں، مگر لوگ بڑے رہتے ہیں
جاؤ، جا کر کسی درویش کی عظمت دیکھو
تاج پہنے ہوئے پیروں میں پڑے رہتے ہیں
جو بھی دولت تھی وہ بچوں کے حوالے کر دی
جب تلک میں نہیں بیٹھوں یہ کھڑے رہتے ہیں

اگر دولت سے ہی سب قد کا اندازہ لگاتے ہیں

اگر دولت سے ہی سب قد کا اندازہ لگاتے ہیں
تو پھر اے مفلسی! ہم داؤ پر کاسا لگاتے ہیں
انہیں کو سربلندی بھی عطا ہوتی ہے دنیا میں
جو اپنے سر کے نیچے ہاتھ کا تکیا لگاتے ہیں
ہمارا سانحہ ہے یہ، کہ اس دورِ حکومت میں
شکاری کے لیے جنگل میں ہم ہانکا لگاتے ہیں

اک حسن کی خلقت سے ہر دل ہوا دیوانہ

اک حسن کی خلقت سے ہر دل ہوا دیوانہ
محفل میں چراغ آیا، گرنے لگا پروانہ
اتنا مِرا قصہ ہے، اتنا مِرا افسانہ
جب تم نہ ملے مجھ کو، میں ہو گیا دیوانہ
سمجھاؤ نہ سمجھے گا، بہلاؤ نہ بہلے گا
تڑپاؤ تو تڑپے گا، پہروں دلِ دیوانہ

مجھ سے نہ پوچھ میرا حال سن مرا حال کچھ نہیں

مجھ سے نہ پوچھ میرا حال، سُن مِرا حال کچھ نہیں
تیری خوشی میں خوش ہوں میں، مجھ کو ملال کچھ نہیں
میرے لئے جہان میں، ماضی و حال کچھ نہیں
جب بھی نہ تھا کوئی سوال، اب بھی سوال کچھ نہیں
مجھ کو کوئی خوشی نہیں، مجھ کو ملال کچھ نہیں
یہ تو تِرا کمال ہے، میرا کمال کچھ نہیں

کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر

کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر، کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں میرا حق ہے فصلِ بہار پر
مجھے دے نہ غیب میں دھمکیاں، گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
میری سلطنت یہی آشیاں، میری ملکیت یہی چار پر
میری سمت سے اسے اے صبا! یہ پیام آخر غم سنا
ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا، کہ خزاں ہے اپنی بہار پر

پھر دل ہے قصد کوچۂ جاناں کیے ہوئے

پھر دل ہے قصدِ کوچۂ جاناں کئے ہوئے
رگ رگ میں نیشِ عشق کو پنہاں کئے ہوئے
پھر عزلتِ خیال سے گھبرا رہا ہے دل
ہر وسعتِ خیال کو زنداں کئے ہوئے
پھر چشمِ شوق دیر سے لبریزِ شکوہ ہے
قطروں کو موج، موج کو طوفاں کئے ہوئے

ہزار راہیں مڑ کے دیکھیں

ہزار راہیں مڑ کے دیکھیں
کہیں سے کوئی صدا نہ آئی
بڑی وفا سے نبھائی تم نے
ہماری تھوڑی سی بے وفائی
جہاں سے تم موڑ مڑ گئے تھے
یہ موڑ اب بھی وہیں پڑے ہیں

گومگو: نہ جانے کیا تھا جو کہنا تھا

گومگو

نہ جانے کیا تھا جو کہنا تھا
آج مل کے تجھے
تجھے ملا بھی تھا مگر
جانے کیا کہا میں نے 
وہ ایک بات جو سوچی تھی
تجھ سے کہہ دوں گا

کس درجہ پر خلوص ہیں کیا مہرباں ہیں لوگ

کس درجہ پُرخلوص ہیں، کیا مہرباں ہیں لوگ
مکر و رِیا کے فن میں وحید الزماں ہیں لوگ 
جو بھی ہے وہ، صبا سے زیادہ ہے تیز رو
 کیا علم، کس لگن میں، کدھر کو رواں ہیں لوگ 
شاید میں آج آپ ہی کچھ غمزدہ نہیں
 محسوس ہو رہا ہے، بڑے شادماں ہیں لوگ 

آپ کی آنکھ اگر آج گلابی ہو گی​

آپ کی آنکھ اگر آج گلابی ہو گی​
میری سرکار بڑی سخت خرابی ہو گی​
محتسب نے ہی پڑھا ہو گا مقالہ پہلے​
مری تقریر بہرحال جوابی ہو گی​
آنکھ اٹھانے سے بھی پہلے ہی وہ ہوں گے غائب​
کیا خبر تھی کہ انہیں اتنی شتابی ہو گی​

ترے غرور کا حلیہ بگاڑ ڈالوں گا

ترے غرور کا حلیہ بگاڑ ڈالوں گا
میں آج تیرا گریبان پھاڑ ڈالوں گا
طرح طرح کے شگوفے جو چھوڑتا ہے تُو
میں دل کا باغِ  نمو ہی اجاڑ ڈالوں گا
کہاں کا سیلِ ازل تا کنار گاہِ ابد
میں ہوں عدم، میں سبھی کو لتاڑ ڈالوں گا

جب تری جان ہو گئی ہو گی

جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہو گی
شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہو گی
اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی

کاوشِ روزگار میں عمر گزار دی گئی

کاوشِ روزگار میں عمر گزار دی گئی
جبر کے اختیار میں عمر گزار دی گئی
دستِ سبک شعار سے شوق رفوگری کا تھا
جامۂ تار تار میں عمر گزار دی گئی
بامِ خیال پر اسے  دیکھا گیا تھا ایک شب
پھر اسی رہگزار میں عمر گزار دی گئی

اسی میں ہو چکا اب کیا نہ چاہوں

اسی میں ہو چکا، اب کیا نہ چاہوں
سزا ہونے کی ہے، ہونا نہ چاہوں
تُو میرے بعد رکھے گا یاد مجھے
میں اپنے بعد اک لمحہ نہ چاہوں
جدھر دیکھو ادھر بے پردگی ہے
کدھر دیکھوں، کہ میں پردہ نہ چاہوں

نقش کہن

نقشِ کُہن

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ
روٹھے گا کون، کس کو منایا کریں گی آپ
وہ جا رہا ہے صبحِ محبت کا کارواں
اب شام کو کہیں بھی نہ جایا کریں گی آپ
اب کون ”خود پرست“ ستائے گا آپ کو
کِس ”بے وفا“ کے ناز اٹھایا کریں گی آپ

Friday, 28 November 2014

عشق میں ہوتا نہیں نفع خسارہ یارا

عشق میں ہوتا نہیں نفع، خسارا، یارا 
جھوٹ مت بول مرے ساتھ خدارا! یارا
خاک چھانی بھی گئی، خاک اڑائی بھی گئی
خاک سے نکلا نہیں کوئی ستارا، یارا
تجھ سے تشکیلِ خد وخال نہیں ہو سکتی 
لے کے آ جا تُو مرے چاک پہ گارا، یارا

ہمسائے میں شیطان بھی رہتا ہے خدا بھی

ہمسائے میں شیطان بھی رہتا ہے، خدا بھی 
جنت بھی میسر ہے، جہنم کی ہوا بھی
یہ شہر تو لگتا ہے کباڑی کی دُکاں ہے 
کھوٹا بھی اسی مول میں بِکتا ہے، کھرا بھی
اس جسم کو بھی چاٹ گئی سانس کی دیمک 
میں نے اسے دیکھا تھا، کسی وقت ہرا بھی

زخم لوگوں سے چھپانا اور سہلانا بھی تھا

زخم لوگوں سے چھپانا، اور سہلانا بھی تھا
آنسوؤں کو ضبط کرنا، دل کو سمجھانا بھی تھا
آپ کا شکوہ بجا ہے، ہم ہی رستے سے اٹھے
شام سے پہلے مسافر نے کہیں جانا بھی تھا
مجھ کو میری صاف گوئی بے بہا مہنگی پڑی
اس کو کانا کہہ دیا جو اصل میں کانا بھی تھا

کہہ دیا جبہ و دستار نہیں چاہتے ہم

کہہ دیا، جبہ و دستار نہیں چاہتے ہم
’’دیکھ! درویش ہیں، تکرار نہیں چاہتے ہم‘‘
ہم بنیں تیرے گنہگار، نہیں چاہتے ہم
اس لیے، پیار کا اظہار نہیں چاہتے ہم
مان لی بات بلا چون و چراں بھائی کی
’’بات اتنی ہے کہ، ‘‘دیوار نہیں چاہتے ہم 

وہ جو دل میں رکھتے ہیں آرزو اذانوں کی

وہ جو دل میں رکھتے ہیں آرزو اذانوں کی
بند کس طرح رکھیں کھڑکیاں مکانوں کی
پرچمِ یقیں ان کو لائے گا نہ خاطر میں
تند و تیز کیسی ہوں آندھیاں گمانوں کی
کیا ہوا زمیں نے گر پاؤں باندھ رکھے ہیں
خواب میں تو کرتے ہیں سیر آسمانوں کی

کهلتا نہیں دراصل ہوں باسی کہاں کا میں

کهُلتا نہیں دراصل ہوں باسی کہاں کا میں
گاہے زمیں کا ہوں تو گہے آسماں کا میں
رکهوں خیال کیسے کسی کہکشاں کا میں
رہبر ہوں ایک سوئے ہوئے کارواں کا میں
کچھ بهی دکهائی دیتا نہیں دور دور تک
مرکز ہوں ایک دائرۂ بے کراں کا میں

Thursday, 27 November 2014

فراز طور انا سے اتر کے دیکھتے ہیں

فرازِ طورِ انا سے اتر کے دیکھتے ہیں
حیات کیا ہے کسی روز مر کے دیکھتے ہیں
جہاں بلندی و پستی میں امتیاز نہ ہو
ہم ایسے لوگ وہاں کب ٹھہر کے دیکھتے ہیں
یہ آگہی کا سفر ضبط کی ریاضت ہے
برہنہ پا بھی خوشی سے گزر کے دیکھتے ہیں

اک عجب کیفیت ہوش ربا طاری تھی

اک عجب کیفیتِ ہوشربا طاری تھی
قریۂ جاں میں ‌کسی جشن کی تیاری تھی
سر جھکائے ہوئے مقتل میں کھڑے تھے جلاد
تختۂ دار پہ لٹکی ہوئی خودداری تھی
خون ہی خون تھا دربار کی دیواروں پر
قابضِ تختِ وراثت کی ریاکاری تھی

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگا ہ ہم پہ عدو کی ہے
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مئے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گِلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے

کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے

کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے
شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے
وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیطِ حسن کرتے
تری دِید کے وسیلے خد و خال تک نہ پہنچے
وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے

شرح بے دردئ حالات نہ ہونے پائی

شرح بے دردئ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ بننے پایا
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی
پھر وہ پروانے جنہیں اِذنِ شہادت نہ ملا
پھر وہ شمعیں کہ جنہیں رات نہ ہونے پائی

رہا نہ کچھ بھی زمانے میں جب نظر کو پسند

رہا نہ کچھ بھی زمانے میں جب نظر کو پسند
تری نظر سے کیا رشتۂ نظر پیوند
ترے جمال سے ہر صبح پر وضو لازم
ہر ایک شب ترے در پر سجود کی پابند
نہیں رہا حرمِ دل میں اِک صنم باطل
ترے خیال کے لات و منات کی سوگند

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمئ رشک سے ہر انجمنِ گل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پزیرائی

ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پزیرائی 
جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی 
آشوبِ نظر سے کی ہم نے چمن آرائی 
جو شے بھی نظر آئی، گلرنگ نظر آئی
امیدِ تلطف میں‌، رنجیدہ رہے دونوں
تُو اور تری محفل، میں اور مری تنہائی 

ردائے تن پہ میری داغ رسوائی تو دیکھو

ردائے تن پہ میری داغ رسوائی تو دیکھو
لرزتے ہیں یہ پاؤں، جادہ پیمائی تو دیکھو
کھلی ہے آنکھ پر خوابوں کی رعنائی تو دیکھو
شبِ ہجراں میں یہ قربت کی شہنائی تو دیکھو
سخن کرتی ہے تم سے رات کی خاموشی بھی اب
دعا جو دل نے کی تھی، اس کی گہرائی تو دیکھو

بکھرتے ہی گئے سب خواہشوں کے ساز کیا کرتے

بکھرتے ہی گئے سب خواہشوں کے ساز، کیا کرتے
تری لَے اور تھی، کچھ اور تھی آواز، کیا کرتے
کمالِ ضبط پر میرے، بھلا وہ ناز کیا کرتے
ستانے آئے تھے مجھ کو وہ چارہ ساز، کیا کرتے
جنہوں نے چادروں کو پھاڑ کر سینے چھپائے ہوں
وہ اپنی مفلسی میں اور پسِ انداز کیا کرتے

رہتا ہے مری تاک میں آزار کا موسم

رہتا ہے مری تاک میں آزار کا موسم
دیکھے ہے تری راہ ثمن زار کا موسم
ہر خواہشِ دل مر چکی، اب اپنی بلا سے
آئے نہ ترے وعدۂ دیدار کا موسم
ہر شاخ پہ دستار سجے پھولوں کی، اس دم
ہوتا ہے ترے وعدہ و اقرار کا موسم

دل کے ارماں روتے تھے بام و در کی یاد میں

دل کے ارماں روتے تھے بام و در کی یاد میں
آ گئے سو لوٹ کر، اپنے گھر کی یاد میں
دھڑکنوں کے شور میں، آہٹوں کی چاپ میں
رو رہے ہیں درد بھی، چارہ گر کی یاد میں
دور تک جاتی ہے، پھر لوٹ آتی ہے نظر
خواب زاروں کی نئی راہگزر کی یاد میں

کب ہمیں تمنا تھی آنکھ میں بسانے کی

کب ہمیں تمنا تھی آنکھ میں بسانے کی
اک تھکن رفاقت کی، اک تھکن زمانے کی
تم سے گر میں روٹھی تھی مان بھی تو جاتی میں
کاش کرتے اک کوشش تم مجھے منانے کی 
ٹوٹتی گئیں کڑیاں اور بڑھ گئی دوری
راہ مٹ گئی اک اک بات کو نبھانے کی

Wednesday, 26 November 2014

کسی کے ساتھ سفر میں نہ اپنے گھر میں ہیں

کسی کے ساتھ سفر میں نہ اپنے گھر میں ہیں
ہم آج آپ کے اخبار کی خبر میں ہیں
نہ اہتمامِ وفا، نہ سرفروشئ عشق
یہ کس قماش کے سودے ہمارے سر میں ہیں
یہ زندگی سے کہو، تلخ گفتگو نہ کرے
ہم اب بھی ان کی محبت بھری نظر میں ہیں

سایہ کہیں کسی کو میسر نہیں ہے کیا

سایہ کہیں کسی کو میسر نہیں ہے کیا
سر پر جو آسمان تھا، سر پر نہیں ہے کیا
اک دوسرے سے اپنا پتا پوچھتے ہیں لوگ
اب کوئی اپنے آپ کے اندر نہیں ہے کیا
ہم زندگی تِرے لیے جان سے گزر گئے
اب بھی تِرا حساب برابر نہیں ہے کیا

لوگ تو شام ڈھلے لوٹ کے گھر جاتے ہیں

لوگ تو شام ڈھلے لوٹ کے گھر جاتے ہیں
راستے اپنے، خدا جانے کدھر جاتے ہیں
ہم کہاں جائیں لیے وحشتِ جاں کا آزار
تند دریا تو سمندر میں اتر جاتے ہیں
اب بھلا پوچھیں تو کیا پوچھیں کسی سے تعبیر
خواب تو صبح سے پہلے ہی بکھر جا تے ہیں

کبھی مضمحل کبھی پرسکوں کبھی برہمی ہے مزاج میں

کبھی مضمحل کبھی پُرسکوں کبھی برہمی ہے مزاج میں
بڑا فرق لگتا ہے جانِ جاں تِرے کل میں اور تِرے آج میں
نئی بندشوں کے ہیں دائرے مِرے جسم و جاں کی فصیل پر
نہیں راہ کوئی فرار کی، میں گِھرا ہوا ہوں سماج میں
یہ علامتیں ہیں شکست کی کہ جو ہاتھ ملتے ہو ہر گھڑی
کبھی وقت سے ہی گِلہ رہا، کبھی نقص رسم و رواج میں

صدہا نہیں جناب مگر چند کب نہ تھے

صدہا نہیں جناب مگر چند کب نہ تھے
ہم میں بھی اگلی نسل کے پیوند کب نہ تھے
کب تھے ہمارے شہر میں کچھ کم صفات لوگ
کٹ جائیں اک صدا پہ، وہ فرزند کب نہ تھے
بیعت کے اعتراف سے کب ہم کو تھا گریز
ہم اے امیرِ شہر! رضامند کب نہ تھے

انا کو بیچتا کیسے یہ ہمت کر نہیں پایا

انا کو بیچتا کیسے، یہ ہمت کر نہیں پایا
میں خود اپنی کبھی کھل کر حمایت کر نہیں پایا
چمن کو رکھ دیا گِروی، وہ جرأت کر نہیں پایا
محافظ بن کے آیا تھا، حفاظت کر نہیں پایا
کبھی سودا خسارے میں، کبھی گاہک نہیں کوئی
میں طَے بازارِ دل میں اپنی قیمت کر نہیں پایا

تم ہار بھی سکتے ہو

تم ہار بھی سکتے ہو

تم ایسی عدالت کے خود ساختہ منصف ہو
آنکھوں سے جو اندھی ہے، کانوں سے جو بہری ہے
احساس سے عاری ہے، طاقت کی پجاری ہے
پیروں کے تلے جس کے تقدیر ہماری ہے
زرخیز زمینوں میں، افراد کے سینوں میں
وہ فصل اُگاتے ہو، ماحول سے نفرت کی

سکھلا ہمیں نہ پیاس کے آداب ہمنشیں

سکھلا ہمیں نہ پیاس کے آداب ہمنشیں
رکھتے ہیں ہم تو شدتِ سیلاب ہمنشیں
ویرانئ حیات کا گھاؤ نہ بھر سکا
ویسے تو بے شمار تھے احباب ہمنشیں
تم پاس تھے تو ایسے منور تھا عرشِ دل
روشن ہوں جیسے سینکڑوں مہتاب ہمنشیں

گھر کو لوٹ آنے کا راستہ نہیں ملتا

وحشتوں کے جنگل سے گھر کو لوٹ آنے کا راستہ نہیں ملتا
تیرے غم نصیبوں کو تجھ کو بھول جانے کا حوصلہ نہیں ملتا
ان سیاہ بختوں کی بے بسی کا اندازہ لفظ کیا لگائیں گے
اپنے گھر کے اندر بھی جن کو سر چھپانے کا آسرا نہیں ملتا
قہقہوں کی آوازیں کیسے پھوٹ سکتی ہیں ان اداس صحنوں سے
جن کی داستانوں میں کوئی مسکرانے کا واقعہ نہیں ملتا

اپنے اترن کا ہمیں دان بھی کر سکتے ہیں

اپنے اترن کا ہمیں دان بھی کر سکتے ہیں
لوگ اب ہم پہ یہ احسان بھی کر سکتے ہیں
ہمیں معلوم نہ تھا، چاک قبا پھولوں کی
صحنِ گلشن کے نگہبان بھی کر سکتے ہیں
خونخواری پہ درندوں کو برا کیا کہنا
یہ تو اس عہد کے انسان بھی کر سکتے ہیں

زمانوں سے در امکان پر رکھے ہوئے ہیں

زمانوں سے درِ امکان پر رکھے ہوئے ہیں
چراغوں کی طرح طوفان پر رکھے ہوئے ہیں
فضاؤں میں مہک جلنے کی بو پھیلی ہوئی ہے
کسی نے پھول آتش دان پر رکھے ہوئے ہیں
ذرا سا بھی گماں تیری شباہت کا تھا جن پر
وہ سب چہرے مِری پہچان پر رکھے ہوئے ہیں

Tuesday, 25 November 2014

گفتار میں ہو کبر فقط عاجزی نہ ہو

گُفتار میں ہو کِبر فقط، عاجزی نہ ہو 
ہے آدمی کہاں وہ اگر آدمی نہ ہو
ہو اعتماد خود پہ مگر خودسری نہ ہو
احساسِ کمتری نہ ہو اور برتری نہ ہو
اے جاذبِ نظر! یہ ملاقات خوب تھی 
پہلی تھی یہ، خدا کرے کہ آخری نہ ہو

طویل غم کا زمانہ گزر گیا شاید

طویل غم کا زمانہ، گزر گیا شاید
وہ میرے صبر کی قوت سے ڈر گیا شاید
وہ سنگسار ہوا ہے ضمیر کے ہاتھوں
وہ اپنے عہدِ وفا سے مُکر گیا شاید
تمہاری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے آخر
تمہارے ضبط کا پیمانہ بھر گیا شاید 

منتظر ہوں میں جس کا وہ شباب کیا ہو گا

منتظر ہوں میں جس کا وہ شباب کیا ہو گا
باحجاب دیکھا ہے، بے حجاب کیا ہو گا
ماہتاب دیکھا تو، یہ قیاس کر بیٹھا
اس کے حسن کے آگے ماہتاب کیا ہو گا
منتظر ہوں سننے کو خود زبان سے اس کی
جانتا ہوں میں یوں تو کہ جواب کیا ہو گا

الفت میں بھول جائیں وہ لیل و نہار کاش

الفت میں بھول  جائیں وہ لیل و نہار کاش
طاری اسی طرح رہے ان پر خمار کاش
محبوب کی شرارتیں محبوب ہیں، مگر
معصومیت کا جز بھی رہے برقرار کاش
آتا ہے جیسے پیار مجھے ان پہ بار بار
ایسے ہی مجھ پہ آنے لگے ان کو پیار کاش

ہر ایک شب کو ترے نام ہونا پڑتا ہے

ہر ایک شب کو تِرے نام ہونا پڑتا ہے
اداس دل کو سرِ شام ہونا پڑتا ہے
خبیث تہمتیں دامن کو چیر جاتی ہیں
تمہارے واسطے بدنام ہونا پڑتا ہے
ہمیں سے لگتا نہیں ہے کسی پہ بھی الزام
ہمیں کو موردِ الزام ہونا پڑتا ہے

ہجر کے ساتھ گزارا بھی تو ہو سکتا ہے

ہجر کے ساتھ گزارا بھی تو ہو سکتا ہے
اب محبت سے کنارا بھی تو ہو سکتا ہے
یہ جو اک نور چمکتا ہے مرے ماتھے پر
یہ ولایت کا اشارا بھی تو ہو سکتا ہے
میں تِرے حسن سے انکار بھی کر سکتا ہوں
 پیار ہونے کو دوبارا بھی تو ہو سکتا ہے

غبار زعم دل بے قرار ختم ہوا

غبارِ زعمِ دلِ بے قرار ختم ہوا
ذرا سی دیر میں برسوں کا پیار ختم ہوا
لے آج ترکِ تعلق بھی کر لیا تُو نے
 لے آج مجھ پہ تِرا اختیار ختم ہوا
 خدا کا شکر، اجازت ملی جدائی کی
 خدا کا شکر، مِرا انتظار ختم ہوا

تم اور فریب کھاؤ بیان رقیب سے

تم اور فریب کھاؤ بیانِ رقیب سے
تم سے تو کم گِلہ ہے زیادہ نصیب سے
گویا تمہاری یاد ہی میرا علاج ہے
ہوتا ہے پہروں ذکر تمہارا طبیب سے
برباد دل کا آخری سرمایہ تھی، امید
وہ بھی تو تم نے چھین لیا مجھ غریب سے

درس خودداری

درسِ خودداری

یقین ان کی عنایت کا زینہار نہ کر
بہشت بھی جو یہ بت دیں تو اعتبار نہ کر
ہر ایک اشک تماشائے صد گلستان ہے
امیدِ عیش کو شرمندۂ بہار نہ کر
وہ مرگِ عشق کی لذت سے آشنا ہی نہیں
دعائے خضرؑ پہ آمین بار بار نہ کر

رو دیتا ہوں

رو دیتا ہوں

ہجر کی نَم آلود ہوا
ہر شام ڈھلے
آنکھ بھگو جاتی ہے
اور میں دھیرے سے
دروازہ بند کرتا ہوں
رو دیتا ہوں 

ہر ایک دن کے تصور سے رات بنتی ہے

ہر ایک دن کے تصور سے رات بنتی ہے
حصارِ رنگ سے نکلیں تو بات بنتی ہے
کسی کسی کو زمانہ فروغ دیتا ہے
کسی کسی کی زمانے کے سات بنتی ہے
نقوشِ ریگ سہی، تُو بھی کچھ بنا کے تو دیکھ
کہ رفتہ رفتہ یونہی کائنات بنتی ہے

تیری محفل میں ستارے کوئی جگنو لایا

تیری محفل میں ستارے کوئی جگنُو لایا
میں وہ پاگل، کہ فقط آنکھ میں آنسُو لایا
جب بھی دنیا میں کسی قصر کی بنیاد پڑی
سنگ کچھ میں نے فراہم کئے، کچھ تُو لایا
تُو نے عالم سحر و شام میں تقسیم کیا
اور میں دل میں نہ کبھی فرقِ سرِ مُو لایا

سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے

سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے
اس چاند سے جب پہلے پہل نین لڑے تھے
رستے بڑے دشوار تھے اور کوس کڑے تھے
لیکن تِری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے
بہتا تھا مِرے پاؤں تلے ریت کا دریا
اور دھوپ کے نیزے مِری نس نس میں گڑے تھے

سب اعتراض اسے شیوہ وفا پر تھا

سب اعتراض اسے شیوۂ وفا پر تھا
کہ اس نے چھوڑ دیا، اختیار ہم نے کیا
سوائے صبر، ہمارے کچھ اور بس میں نہ تھا
سو جتنا ہو سکا، پروردگار! ہم نے کیا
رفاقتوں کا ہمارا وسیع تجربہ ہے
کہ ایک عمر یہی کاروبار ہم نے کیا

Monday, 24 November 2014

کھڑکیاں مت بجا میں نہیں بولتی

کھڑکیاں مت بجا میں نہیں بولتی
جا او جھوٹی ہوا! میں نہیں بولتی
چھوڑ دے، میری دہلیز کو چھوڑ دے
تجھ سے کہہ جو دیا، میں نہیں بولتی
مجھ سے اب میٹھے لہجے میں باتیں نہ کر
میرا دل بجھ چکا، میں نہیں بولتی

سب کا احسان اٹھانے کی ضرورت کیا ہے

سب کا احسان اٹھانے کی ضرورت کیا ہے
ساتھ ہو تم، تو زمانے کی ضرورت کیا ہے
مسئلہ دونوں کا ہے، طے بھی کریں گے دونوں
شہر کو بیچ میں لانے کی ضرورت کیا ہے
دل سے طے کر کے کسی روز الگ ہو جاؤ
چھوڑنا ہے، تو بہانے کی ضرورت کیا ہے

دیکھوں گی گھر کے خواب نہ ہجرت لکھوں گی میں

دیکھوں گی گھر کے خواب نہ ہجرت لکھوں گی میں
اس بار، کوئی اور مسافت لکھوں گی میں
اس زندگی نے جو بھی مجھے دکھ دیئے، دیئے
لیکن، انہیں بھی تیری عنایت لکھوں گی میں
میری غزل میں ذکرِ زمانہ نہ آئے گا
طے یہ ہوا ہے صرف محبت لکھوں گی میں

آتے ہیں جن کے در سے پیمبر صبا کے دیکھ

آتے ہیں جن کے در سے پیمبر صبا کے دیکھ
کھلتے ہیں شاخ شاخ پہ چہرے خدا کے دیکھ
اے آفتاب! جلوۂ یزداں کا احترام
چہرہ مِری زمیں کا کرنیں جھکا کے دیکھ
میں منزلِ ثبات کو ٹھکرا کے آ گیا
بِچھتے ہیں میرے پاؤں میں رستے فنا کے دیکھ

پڑتال

پڑتال

ساری عمر کے سارے سُکھ اور سارے دُکھ
اکٹھے کر کے
دُکھ سُکھ سے تفریق کرو تو
حاصل، زندہ رہنا ہو گا
حاصل جو اثبات نہیں ہے
لیکن کوئی بات نہیں ہے

جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں

جاگے ہوئے تھے خواب مگر سو رہا تھا میں
ہاتھوں میں تھی کتاب، مگر سو رہا تھا میں
جب رات اپنے رقص کی دیوانگی میں تھی
نکلا وہ ماہتاب، مگر سو رہا تھا میں
جلتی تھی لالٹین کہیں دور گاؤں میں
روشن تھا کوئی باب، مگر سو رہا تھا میں

پکارتی ہوئی پرچھائیوں کے پہرے ہیں

پکارتی ہوئی پرچھائیوں کے پہرے ہیں
فصیلِ جسم پہ تنہائیوں کے پہرے ہیں
وہ دے رہا ہے صدائیں مجھے بلندی سے
قدم قدم پہ مگر کھائیوں کے پہرے ہیں
مِری نظر بھی تھکن آشنا ہے صدیوں سے
تِرے بدن پہ بھی انگڑائیوں کے پہرے ہیں

ان سے کہیں ملے ہیں تو ہم یوں کبھی ملے

ان سے کہیں ملے ہیں تو ہم یوں کبھی ملے
اک اجنبی سے جیسے کوئ اجنبی مِلے
بس ایک مے کدہ ہے یہاں وہ حسیں مقام
ہر شام اک سحر کی جہاں روشنی مِلے
مجھ کو ہُوا جہاں بھی اندھیروں کا سامنا
اکثر وہاں چراغ لیے آپ ہی مِلے

زمیں پہ چاند اترتا دکھائی دیتا ہے

زمیں پہ چاند اترتا دکھائی دیتا ہے
ترا خیال بھی تجھ سا دکھائی دیتا ہے
جو ساتھ لے کے چلا تھا، ہزار ہنگامے
وہ شخص، آج اکیلا دکھائی دیتا ہے
ہوا چلی تو اندھیروں کی آگ تیز ہوئی
ہر ایک خواب پگھلتا دکھائی دیتا ہے

چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں

چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں، میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں
فریبِ تخیل سے میں ایسے ہزار نقشے جما چکا ہوں
حقیقتاً میرا سر ہے زانو پہ تیرے یا خواب دیکھتا ہوں
پیام آیا ہے، تم مکاں سے کہیں نہ جانا، میں آ رہا ہوں
میں اس عنایت کو سوچتا ہوں خدا کی قدرت کو دیکھتا ہوں

دنیا کی اب حالت یہ ہے دنیا کے یہ نقشے ہیں

دنیا کی اب حالت یہ ہے دنیا کے یہ نقشے ہیں
اپنا جن کو کہتے ہیں ہم، دشمن ان سے اچھے ہیں
میرے حال پہ ہنسنے والو! مانگو مستقبل کی خیر
مجبوروں پر ہنسنے والے اکثر روتے دیکھے ہیں
آپ کو میرے صحرا کے کانٹوں پر بستر کا کیا درد
آپ تو پھولوں کے دامن میں نکہت بن کر سوتے ہیں

شباب آیا کسی بت پر فدا ہونے کا وقت آیا

شباب آیا، کسی بُت پر فدا ہونے کا وقت آیا
مری دنیا میں بندے کے خدا ہونے کا وقت آیا
تکلم کی خموشی کہہ رہی ہے حرفِ مطلب سے
کہ، اشک آمیز نظروں سے ادا ہونے کا وقت آیا
اسے دیکھا تو زاہد نے کہا، ایمان کی یہ ہے
کہ، اب انسان کو سجدہ روا ہونے کا وقت آیا

آباد اگر نجد کا ویرانہ نہیں ہے

آباد اگر نجد کا ویرانہ نہیں ہے
مجنوں کو بُلا لاؤ، وہ دیوانہ نہیں ہے
ہے شمعِ وفا محفلِ الفت میں ضیا ریز
اس شمع پہ لیکن کوئی پروانہ نہیں ہے
یہ عقل کی باتوں میں تو آئے گا نہ ہرگز
عاشق ترا ہشیار ہے، دیوانہ نہیں ہے

کچھ یوں بھی سنو شوق ندامت نہیں مجھ کو

کچھ یوں بھی سنو شوقِ ندامت نہیں مجھ کو
قاتل سے بھی اپنے تو عداوت نہیں مجھ کو
تم بھی تو ہو خود اپنے ہی حالات میں محصور
تم سے بھی مری جان! شکایت نہیں مجھ کو
یہ سچ ہے، کہ کہنے کو ہوں ناکام بظاہر
جھوٹے سے بھی دل رکھنے کی عادت نہیں مجھ کو

فقیہ شہر کو جب بھی کبھی سلام لکھا

فقیہِ شہر کو جب بھی کبھی سلام لکھا
شعورِ ذات میں احساس نے غلام لکھا
لکھا ہےشہر کی سڑکوں پہ کس نے خوف و ہراس
جبینِ وقت میں کس نے یہ انتقام لکھا
مری طرح سے مرا جسم ٹوٹ پھوٹ گیا
لرزتی پوروں سے اس نے جو میرا نام لکھا

لو دل کا داغ دے اٹھے ایسا نہ کیجیے

لَو دل کا داغ دے اٹھے، ایسا نہ کیجیے
ہے ڈر کی بات آگ سے کھیلا نہ کیجیے
کہتا ہے عکس حسن کو رسوا نہ کیجیے
ہر وقت آپ آئینہ دیکھا نہ کیجیے
کہتی ہے مے فروشوں سے میری سفید رِیش
دے دیں گے دام، ان سے تقاضا نہ کیجیے

ہوشیاری ہے فریب عاشقی کھانے کا نام

ہوشیاری ہے فریبِ عاشقی کھانے کا نام
عاشقی ہے بند آنکھیں کر کے لٹ جانے کا نام
قیس اور فرہاد نے تعظیم کا سجدہ کیا
بزمِ وحشت میں جو آیا تیرے دیوانے کا نام
سرفروشی عاشقی میں، کامیابی کا ہے راز
شمع کل روتی رہی سن سن کے پروانے کا نام

میرے سر پہ کبھی چڑھی ہی نہیں

میرے سر پہ کبھی چڑھی ہی نہیں
میں نے کچے گھڑے کی پی ہی نہیں
ہائے سبزے میں وہ سیہ بوتل
کبھی ایسی گھٹا اٹھی ہی نہیں
کس قدر ہے بنا ہوا زاہد
جیسے اس نے “وہ چیز“ پی ہی نہیں

دل کی آگ کہاں لے جاتے، جلتی بجھتی چھوڑ چلے

دل کی آگ کہاں لے جاتے، جلتی بجھتی چھوڑ چلے
بنجاروں سے ڈرنے والو! لو ہم بستی چھوڑ چلے
آگے آگے چیخ رہا ہے صحرا کا اک زرد سفر
دریا جانے ساحل جانے، ہم تو کشتی چھوڑ چلے
مٹی کے انبار کے نیچے، ڈوب گیا مستقبل بھی
دیواروں نے دیکھا ہو گا، بچے تختی چھوڑ چلے

کیا کیا پھول سے لمحوں کو گنوانے کے سوا

کیا کِیا پھول سے لمحوں کو گنوانے کے سوا
پتیاں نوچ کے پانی میں بہانے کے سوا
رات، پل بھر کے لیے گھر میں ہوا آئی تھی
کام ہی کیا تھا اسے شمع بجھانے کے سوا
زندگی! تُو مِرے چہرے پہ ہنسے یا روئے
میں کہاں جاؤں تِرے آئینہ خانے کے سوا

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں

اب کے کچھ ایسی سجی محفلِ یاراں جاناں
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بہ  پا لگتا ہے 
شہر کا شہر ہوا داخلِ زِنداں جاناں

برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا

برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے، پر نام تھا بھلا سا
ابرُو کِھچے کِھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا

چلی ہے شہر میں کیسی ہوا اداسی کی

چلی ہے شہر میں کیسی ہوا اداسی کی
سبھی نے اوڑھ رکھی ہے رِدا اداسی
لباسِ غم میں تو وہ اور بن گیا قاتل
سجی ہے کیسی، کسی پر قبا اداسی کی
غزل کہوں تو خیالوں کی دھند میں مجھ سے
کرے کلام کوئی الپسرا اداسی کی

نہ کوئی تازہ رفاقت نہ یار دیرینہ

نہ کوئی تازہ رفاقت نہ یارِ دیرینہ
وہ قحطِ عشق کہ دشوار ہو گیا جینا
مِرے چراغ تو سورج کے ہم نسب نکلے
غلط تھا اب کے تِری آندھیوں کا تخمینہ
یہ زخم کھائیو سر پر بپاسِ دستِ سبُو
وہ سنگِ محتسب آیا، بچائیو مِینا

ہر کوئی جاتی ہوئی رت کا اشارہ جانے

ہر کوئی جاتی ہوئی رُت کا اشارہ جانے
گُل نہ جانے بھی تو کیا باغ تو سارا جانے
کس کو بتلائیں کہ آشوبِ محبت کیا ہے
جس پہ گزری ہو، وہی حال ہمارا جانے
جان نکلی کسی بِسمل کی نہ سورج نکلا
بُجھ گیا کیوں شبِ ہجراں کا ستارا جانے

شعلہ سا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو

شعلہ سا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
جو زہر پی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو
یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی
اے خسروان شہر! قبائیں مجھے نہ دو

صنم تراش پر آداب کافرانہ سمجھ

صنم تراش پر آدابِ کافرانہ سمجھ
ہر ایک سنگِ سرِ راہ کو خدا نہ سمجھ
میں تجھ کو مانگ رہا ہوں قبول کر کہ نہ کر
یہ بات تیری مِری ہے اسے دعا نہ سمجھ
پلٹ کے آئے گا وہ بھی گئی رُتوں کی طرح
جو تجھ سے رُوٹھ گیا ہے اسے جدا نہ سمجھ

آج بازار میں پابجولاں چلو

آج بازار میں پابجولاں چلو

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو
دستِ افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

یک بیک شورشِ فغاں کی طرح​

یک بیک شورشِ فغاں کی طرح​
فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح​
صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں​
ہر روش کِھنچ گئی کماں کی طرح​
پھر لہو سے ہر ایک کاسۂ داغ​
پُر ہُوا جامِ ارغواں کی طرح​

کہاں جاؤ گے

کہاں جاؤ گے
اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ چاند​
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے​
عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری​
سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے​
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں​
اپنی تنہائی سمیٹے گا، بچھائے گا کوئی​

آج یوں موج در موج غم تھم گیا

آج یوں موج در موج غم تھم گیا، اس طرح غم زدوں کو قرار آ گیا​
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی، جیسے پیغامِ دِیدارِ یار آ گیا​
جس کی دِید و طلب وہم سمجھے تھے ہم، رُو بُرو پھر سرِ رہگزار آ گیا​
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا، عمرِ رفتہ تِرا اعتبار آ گیا​
رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں​
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گُل کِھلا، اشک اُمڈے کہ ابرِ بہار آ گیا​

ملاقات مری

ملاقات مری

ساری دیوار سیہ ہو گئی تا حلقۂ دام​
راستے بجھ گئے رخصت ہوئے رہگیر تمام​
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مِری​
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مِری​
اک ہتھیلی پہ حِنا، ایک ہتھیلی پہ لُہو​
اک نظر زہر لئے، ایک نظر میں دارو​

ہم خستہ تنوں سے محتسبو

ہم خستہ تنوں سے محتسبو! کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں

فیض احمد فیض

شورش زنجیر بسم اللہ

شورشِ زنجیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ​
ہر اک جانب مچا کہرامِ  دار و گیر بسم اللہ​
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ​

درِ زنداں پہ بلوائے گئے پھر سے جنوں والے​
دریدہ دامنوں والے، پریشاں گیسوؤں والے​

چہرہ میرا تھا نگاہیں اس کی

چہرہ میرا تھا، نگاہیں اس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوئی ہوئی سانسیں اس کی

پھول آئے نہ برگ تر ہی ٹھہرے

پھول آئے، نہ برگِ تر ہی ٹھہرے
دکھ پیڑ کے بے ثمر ہی ٹھہرے
ہیں تیز بہت ہوا کے ناخن
خوشبو سے کہو کہ گھر ہی ٹھہرے
کوئی تو بنے خزاں کا ساتھی
پتہ نہ سہی، شجر ہی ٹھہرے

اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے

اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے
کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے
میں اُس کے خیال سے گُریزاں
وہ میری صدا جھٹک رہا ہے
تحریر اسی کی ہے، مگر دل
خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے

بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی

بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے
پلکوں پہ کچی نیندوں کا رس پھیلتا ہو جب
ایسے میں آنکھ دھوپ کے رخ کیسے کھولیے
تیری برہنہ پائی کے دکھ بانٹتے ہوئے
ہم نے خود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے

Sunday, 23 November 2014

پوشیدہ ہے کچھ پردۂ اسرار کے پیچھے

پوشیدہ ہے کچھ، پردۂ اسرار کے پیچھے
ہے کرب نمایاں، ترے انکار کے پیچھے
سائے کے بھلا کیا قد و قامت سے الجھنا
سورج سے نپٹ لوں جو ہے دیوار کے پیچھے
لَوٹ آئے ہیں ‌خاموش نہ دیکھی گئی ہم سے
ارزانئ دل، رونقِ بازار کے پیچھے

دل پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے آنکھ کو خوں برسانے دو

دل پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے آنکھ کو خوں برسانے دو
ہم سے جنوں کی بات کرو تم، ہوش و خرد کو جانے دو
بات نہ کرنا، چپ رہنا، نظریں نہ ملاؤ، دیکھ تو لو
اس پر بھی گر، چہرے کا رنگ، اڑتا ہے، اڑ جانے دو
مَن کی بات چھپانا مشکل، آنکھیں سب کہہ دیتی ہیں
ایسے بھی کیا دل پر پہرے، کچھ تو زباں تک آنے دو

آغاز محبت کا سماں بھول گئے کیا

آغازِ محبت کا سماں بھول گئے کیا
ہر لمحہ، وہ رقصِ دل و جاں بھول گئے کیا
چہرے کی تب و تاب وہ آہٹ پہ ہماری
ہر پَل وہ سُوئے درِ نگراں بھول گئے کیا
کیا حرفِ محبت کو، تکلم کی ضرورت
آنکھوں میں ہے جو حسنِ بیاں بھول گئے کیا

قطع تعلق سے مطمئن ہو تو پھر یہ دل میں کسک سی کیوں ہے

قطع تعلق سے مطمئن ہو، تو پھر یہ دل میں کسک سی کیوں ہے
یہ ہاتھ سینے پہ کیوں دھرا ہے، یہ بھیگی بھیگی پلک سی کیوں ہے
یہ لگ رہا ہے، ابھی گئے ہیں برس کے، یادوں کے کالے بادل
کسی کے حسنِ نظر کا پرتَو ہے، ورنہ دل میں‌ دھنک سی کیوں ہے
اگر یہ سمجھا رہے ہو خود کو، کہ زخم اب سارے بھر گئے ہیں
تو رِِس رہا ہے لہو کہاں سے، یہ تازہ خوں کی مہک سی کیوں ہے

ابھی رکے نہیں صدمے تھمے نہیں آنسو

ابھی رُکے نہیں صدمے، تھمے نہیں آنسو
کہیں پہ خون پڑا، اور کہیں گرے آنسو
یونہی نہیں یہاں چشمے ابلنے لگتے ہیں
کئی زمانوں سے پیتی رہی زمیں آنسو
گرے تو تیرا ہی دامن بھگو کے رکھ دیں گے
اگر نہ روک سکی تیری آستیں آ نسو

جہاں ہے دشمنی کی حد وہاں تک آ گئے آخر

جہاں ہے دشمنی کی حد، وہاں تک آ گئے آخر
تمہارے تیر ترکش سے کماں تک آ گئےآخر
کسی اندوہ پر اب تو کلیجے شق نہیں ہوتے
ردائے بے حسی اوڑھے کہاں تک آ گئے آخر
وہی ہو کر رہا آخر کہ جس کا دل کو دھڑکا تھا
جہاں سے ابتداء کی تھی وہاں تک آ گئے آخر

نگاہ لطف گر اے ساقئ میخانہ ہو جائے

نگاہِ لطف گر اے ساقئ مے خانہ ہو جائے
میں بن جاؤں شرابِ ناب، دل پیمانہ ہو جائے
دلِ مضطر پہ رحم آتا ہے اور ہوتی ہے وحشت بھی
کہیں رسوا نہ کر دے اور خود رسوا نہ ہو جائے
کروں ایجاد وہ رنگِ محبت، بزم دنیا میں
طریقِ راہ و رسمِ قیس، اک افسانہ ہو جائے

حال دونوں کا ہے غیر اب سامنا مشکل کا ہے

حال دونوں کا ہے غیر، اب سامنا مشکل کا ہے
دل کو میرا درد ہے اور مجھ کو رونا دل کا ہے
وحشت آبادِ جہاں میں دل بہلنے کا نہیں
رنگ کچھ پہلے ہی سے بے رنگ اس محفل کا ہے
واہ کیا کہنا ہے، اے کوتاہئ دستِ ہوس
دورِ آخر ہے مگر پاسِ ادب محفل کا ہے

چاند تاروں کا خلاؤں کا سفر ٹھیک نہیں

چاند تاروں کا، خلاؤں کا سفر ٹھیک نہیں
گھر کے حالات مِری جان اگر ٹھیک نہیں
رخ سے اخبار کے ہو لاکھ عیاں خوشحالی
ہم کو معلوم ہے اندر کی خبر ٹھیک نہیں
چاہتا ہوں کہ تجھے دور سے دیکھوں اب کے
میری نزدیک کی اے دوست! نظر ٹھیک نہیں

اس طرح کیجئے اندیشہ فردا سے گریز

اس طرح کیجیے اندیشۂ فردا سے گریز
مصلحت کرتی ہے جس طرح شناسا سے گریز
تشنگی میری طرح تُو بھی قلندر نکلی
کبھی قطرے پہ تصدق کبھی دریا سے گریز
منزلِ عشق کا راہی ہوں مجھے کیا معلوم
دامنِ صبر ہے بہتر کہ تمنا سے گریز

اس سے پہلے کہ کالعدم ہو جائیں

اس سے پہلے کہ کالعدم ہو جائیں
آؤ، اک دوسرے میں ضم ہو جائیں
رات کو رات، دن کو دن لکھ کر
صفحۂ دہر پر رقم ہو جائیں
الجھنیں ختم ہو نہیں سکتیں
اتنی کوشش کریں کہ کم ہو جائیں

جیون راہ پہ چلتے چلتے مڑ کر دیکھا برسوں بعد

جیون راہ پہ چلتے چلتے مڑ کر دیکھا برسوں بعد
کیا کھویا کیا پایا ہم نے آج یہ جانا برسوں بعد
ایک ذرا سی دیر میں برسوں کی خاموشی ٹوٹ گئی
کس نے سمے کی جھیل میں پہلا پتھر پھینکا برسوں بعد
بیٹھے بیٹھے آج کسی کی یاد نے یوں انگڑائی لی
اشکوں کا بے موسم بادل ٹوٹ کے برسا برسوں‌ بعد

ٹوٹ کر جیسے دریا سے پیاسے ملیں

ٹوٹ کر جیسے دریا سے پیاسے ملیں
یوں ملیں جب کسی آشنا سے ملیں
جس نے سرکش ہوا کی کمر توڑ دی
آئیے اُس دیئے کی ضیاء سے ملیں
عشق کی انتہا دیکھنی ہے، تو آ
چل ذرا اہلِ کرب و بلا سے ملیں

تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا

تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا
جا، اب تِرا خیال مجھے بھی نہیں رہا
تُو نے بھی موسموں کی پزیرائی چھوڑ دی
اب شوقِ ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا
میرا جواب کیا تھا تجھے بھی خبر نہیں
یاد اب تِرا سوال مجھے بھی نہیں رہا

وہ خوش انداز و خوش اطوار کہیں ملتے ہیں

وہ خوش انداز و خوش اطوار کہیں ملتے ہیں
زندگی! تیرے پرستار کہیں ملتے ہیں
جیسے اک موڑ پہ ملتے ہیں کہیں شام و سحر
اس طرح بھی دل و دلدار کہیں ملتے ہیں
جو سماعت کو کریں قلب و نظر سے آمیز
اس کہانی میں وہ کردار کہیں ملتے ہیں

مرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا

مِرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا
چھپا تھا دل میں جو نغمہ مجھے سنائی دیا
جہاں شناس و خود آگاہ کر دیا مجھ کو
مِرے شعور نے وہ دردِ آشنائی دیا
جو پا لیا تجھے، میں خود کو ڈھونڈنے نکلا
تمہارے قرب نے بھی زخمِ نارسائی دیا

میں سمندر ہوں کوئی آ کے کھنگالے مجھ کو

میں سمندر ہوں، کوئی آ کے کھنگالے مجھ کو
بے کراں پیار کے کوزے میں بسا لے مجھ کو
میں اندھیرے کے مقابل انہیں لے آیا ہوں
اپنے اندر نظر آئے جو اجالے مجھ کو
چل پڑا ہوں میں کسی منزلِ گل کی جانب
پھول لگنے لگے اب پاؤں کے چھالے مجھ کو

امیر شہر کے دست ہنر کا ذکر نہیں

امیرِ شہر کے دستِ ہنر کا ذکر نہیں
تمام شہر جلا اس کے گھر کا ذکر نہیں
پڑھا ہے ہم نے بہت ہاتھ کی لکیروں کو
کہیِں معاہدۂ خیر و شر کا ذکر نہیں
تمہارے حسن کی تاریخ نامکمل ہے
کسی جگہ مرے حسنِ نظر کا ذکر نہیں

نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم کہیں تو کس سے کہیں فسانہ

نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم کہیں تو کس سے کہیں فسانہ
تمہیں خبر کیا، ہنسا ہے کیا کیا، رُلا رُلا کے ہمیں زمانہ
بسی تو بستی ہمارے دل کی، چلو بالآخر اسی بہانے
ملا نہ کون و مکاں میں رنج و غم و الم کو کوئی ٹھکانہ
جہاں کی نیرنگیوں سے شکوہ ہو کیا کہ تم خود بدل گئے ہو
نظر اٹھاؤ، ادھر تو دیکھو! بنا رہے ہو عبث بہانہ

کیوں تجھے اپنے ستم یاد آئے

کیوں تجھے اپنے ستم یاد آئے
کس نے دل توڑا، جو ہم یاد آئے
جھک گئی کیوں یہ نظر ملتے ہی
کیا کوئی قول و قسم یاد آئے؟
کچھ نہ کچھ ہے تو اداسی کا سبب
مان بھی جاؤ، کہ ہم یاد آئے

سوائے رحمت رب کچھ نہیں ہے

سوائے رحمتِ رب کچھ نہیں ہے
بہت کچھ تھا مگر اب کچھ نہیں ہے
یہ وقتِ نزع ہے، کیا نذر دوں میں
اب آئے ہو یہاں جب کچھ نہیں ہے
نہ پوچھو دل سے اس کی راہ کا حال
سوائے عشق، مذہب کچھ نہیں ہے

ہجر کی شب نالہِ دل وہ صدا دینے لگے

ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
آئیے! حالِ دلِ بیمار، سنئیے، دیکھیے
کیا کہا زخموں نے، کیوں ٹانکے صدا دینے لگے
کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے

کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی نہ رہتی، تو پھر ہم نہ رہتے
نشیمن نہ جلتا، نشانی تو رہتی
ہمارا تھا کیا، ٹھیک رہتے نہ رہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

اپنے اندر کے اندھیروں کو مرے ساتھ نہ کر

اپنے اندر کے اندھیروں کو مِرے ساتھ نہ کر
دل نہ مانے جو تِرا مجھ سے ملاقات نہ کر
اک اجالا سا رہے پچھلی ملاقاتوں کا
بدگمانی کی گھٹاؤں سے یہاں رات نہ کر
دیکھ! ڈھ جائیں گے یہ کچے گھروندے دل کے
اتنی شدت سے تو خدشات کی برسات نہ کر

دیوار کھینچے جاتا ہے در کر نہیں رہا

دیوار کھینچے جاتا ہے، در کر نہیں رہا
کیا ہو گیا ہے دل کو، خبر کر نہیں رہا
تم جو شرر سا دیکھتے ہو میری راکھ میں
وہ شعلگی کی سمت سفر کر نہیں رہا
افسردۂ بہار ہوا ایسا یہ شجر
مدت گزر گئی ہے ثمر کر نہیں رہا

فریب خود کو دیا خود ہی آہ و زاری کی

فریب خود کو دیا خود ہی آہ و زاری کی
مثال ہے کہیں ایسی فریب کاری کی
ہمارا عہدِ وفا حرف حرف روشن تھا
تمہارا عہدِ وفا شرطِ رازداری کی
ہوا ہے خوگرِ رنج و ملال، شہر تمام
سو ہم نے رسم اٹھا دی ہے غمگساری کی

کہیں تو چھوڑ گیا ہو گا کچھ نشاں اپنے

کہیں تو چھوڑ گیا ہو گا کچھ نشاں اپنے
وہ اک فسانہ سا گزرا جو درمیاں اپنے
ہوئے جو گنگ بدلتی رتوں کی حیرت سے
وہ جذبے ہوں گے کبھی آپ ترجماں اپنے
یہ بے زباں تو نہیں ان کی خامشی کو سمجھ
نشان چھوڑ گئے ہیں جو رفتگاں اپنے

پوریں زخمی ہو جاتی ہیں، تار سے تار ملانے میں

پَوریں زخمی ہو جاتی ہیں، تار سے تار ملانے میں
گِرہ لگاتے ریشم سے رشتوں کے تانے بانے میں
پوچھتے ہیں وہ، تم کو کسی کا ساتھ نہیں اچھا لگتا
فرق نہ سمجھیں رشتوں کے اپنانے اور نبھانے میں
بڑے ہی پرفن ہوتے ہیں یہ بھولے بھالے دکھتے لوگ
کیسا کیسا بھٹکاتے ہیں اپنی بات سجھانے میں

زندگی بھر کی شناسائی چلی جائے گی

زندگی بھر کی شناسائی چلی جائے گی
گھر بسا لوں گا تو تنہائی چلی جائے گی
آنکھ کھلتے ہی عجب کشمکشِ ہجر میں ہوں
خواب دیکھوں گا، تو بینائی چلی جائے گی
جسکے حصے کے بھی دکھ ہوں، مِرے سینے میں اتار
پھر سمندر سے یہ گہرائی چلی جائے گی

تم کیا جانو عشق میں گزرے لمحے کیا بے کار گئے

تم کیا جانو عشق میں گزرے لمحے کیا بیکار گئے
پیار تو جیون کی بازی تھی، تم جیتے ہم ہار گئے
ہجر کے جاگتے لمحو! تم کو یاد ہو تو اتنا بتلاؤ
کتنے چاند نکل کر ڈوبے، اور کتنے تہوار گئے
جلتی ہوئی سڑکوں پر رقصاں دھول بھرا سناٹا تھا
ہم جو سلگتی تنہائی کے خوف سے کل بازار گئے

کبھی چھپایا نہیں جو گناہ مجھ سے ہوا

کبھی چھپایا نہیں جو گناہ مجھ سے ہوا
بتا دیا جو سفید و سیاہ مجھ سے ہوا
یہ بارِ ہجر بھی تیرے سپرد کر دیتا
بس اک یہی نہ مِرے کجکلاہ مجھ سے ہوا
حضورِ صبح، اجالوں نے مجھ کو پیش کیا
غرورِ منزلِ شب گردِ راہ مجھ سے ہوا

یہ جھوٹ ہے دلداری کے موسم نہیں آئے

یہ جھوٹ ہے، دلداری کے موسم نہیں آئے
مجھ پر ہی مِری باری کے موسم نہیں آئے
وہ ہم کو بنائیں ہدفِ سنگِ ملامت
خود جن پہ گنہگاری کے موسم نہیں آئے
ہم جیسے تھے، ویسے ہی نظر آئے، سو ہم پر
اے دوست! اداکاری کے موسم نہیں آئے

اگرچہ رنج بہت ہے، پہ لب ہلیں گے نہیں

اگرچہ رنج بہت ہے، پہ لب ہلیں گے نہیں
بس اک نظر تجھے دیکھیں گے، کچھ کہیں گے نہیں
اس ایک پَل کی رفاقت کو بھی غنیمت جان
تمام عمر تِرے ساتھ ہم رہیں گے نہیں
ہم آنے والے دنوں کی تجھے خبر دیں گے
گئی رُتوں کے حوالے تجھے لکھیں گے نہیں

زخم احساس اگر ہم بھی دکھانے لگ جائیں

زخمِ احساس اگر ہم بھی دکھانے لگ جائیں
شہر کے شہر اسی غم میں ٹھکانے لگ جائیں
جس کو ہر سانس میں محسوس کِیا ہے ہم نے
ہم اسے ڈھونڈنے نکلیں تو زمانے لگ جائیں
ابر سے اب کے ہواؤں نے یہ سازش کی ہے
خشک پیڑوں پہ ثمر پھر سے نہ آنے لگ جائیں

وہ جو ہمرہی کا غرور تھا وہ سواد راہ میں جل بجھا

وہ جو ہمرہی کا غرور تھا وہ سواد راہ میں جل بجھا
تو ہوا کے عشق میں گھل گیا میں زمیں کی چاہ میں جل بجھا
یہ جو شاخ لب پہ ہجومِ رنگِ صدا کھلا ہے گلی گلی
کہیں کوئی شعلۂ بے نوا کسی قتل گاہ میں جل بجھا
جو کتابِ عشق کے باب تھے تِری دسترس میں بکھر گئے
وہ جو عہد نامۂ خواب تھا وہ میری نگاہ میں جل بجھا

Saturday, 22 November 2014

رنگ لايا ہے ہجوم ساغر و پيمانہ آج

رنگ لايا ہے ہجومِ ساغر و پيمانہ آج
بھر گئی سيرابيوں سے محفلِ رندانہ آج
بسکہ زيب انجمن ہے وہ جلوۂ جانانہ آج
ہے سراپا آرزو ہر عاشق ديوانہ آج
يہ ہوا بے تابيوں پر نشۂ مے کا اثر
کہہ ديا سب ان سے حالِ شوقِ گستاخانہ آج

پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو

پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
مجھ کو ديکھو، ميرے مرنے کی تمنا ديکھو
جرمِ  نظارہ پہ کون اتنی خوشامد کرتا
اب وہ روٹھے ہيں لو اب اور تماشا ديکھو
دو ہی دن ميں وہ بات ہے نہ وہ چاہ نہ پيار
ہم نے پہلے ہی يہ تم سے نہ کہا تھا ديکھو

دل کو مٹا کے داغ تمنا دیا مجھے

دل کو مٹا کے داغِ تمنا دیا مجھے
اے عشق! تیری خیر ہو یہ کیا دیا مجھے
محشر میں بات بھی نہ زباں سے نکل سکی
کیا جھک کہ اس نگاہ نے سمجھا دیا مجھے
میں اور آرزوئے وصالِ پری رُخاں
اس عشق سادہ لوح نے بہکا دیا مجھے

ستم کوشیاں ہیں ستم کاریاں ہیں

ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
بس اک دل کی خاطر یہ تیاریاں ہیں
چمن سوز، گلشن کی گلکاریاں ہیں
یہ کس سوختہ دل کی چنگاریاں ہیں
نہ بے ہوشیاں اب، نہ ہشیاریاں ہیں
محبت کی تنہا فسوں کاریاں ہیں

آج ہوا کا رخ کہتا ہے موسم پاگل برسے گا

آج ہوا کا رخ کہتا ہے، موسم پاگل برسے گا
زلف کسی کی لہرائے گی، ٹوٹ کے بادل برسے گا
مئے خانے میں آنے والو! ظلمت کی پروا نہیں
مئے کی بوتل گھل جائے گی، نور جھلاجھل برسے گا
عشق کو کھیل سمجھنے والو! پہلے جل کر خاک تو ہو
زلف کھلے گی لالہ رخوں کی، راکھ پہ آنچل برسے گا

مدت گزری مٹ گئی ہستی زنداں میں دلگیروں کی

مدت گزری مٹ گئی ہستی زنداں میں دلگیروں کی
رات ڈھلے اب بھی آتی ہیں آوازیں زنجیروں کی
عشق کا سینا چھلنی ہو گا، کڑکے گی ابرو کی کماں
سنتے ہیں اب بارش ہو گی شہروں شہروں تیروں کی
آگ، دھواں اور خون کے قصے کہتی ہے رنگوں کی زباں
شہرِ ستم میں جب بھی نمائش ہوتی ہے تصویروں کی

بدگمانی چھوڑئیے دل کو کشادہ کیجیۓ

بدگمانی چھوڑئیے، دل کو کشادہ کیجیے
فائدہ پہنچائیے، یا استفادہ کیجیے
دوستو! دستِ عدو کیا ہے، خدا مل جائے گا
آپ پہلے دل سے ملنے کا ارادہ کیجیے
منزلِ دل سے لپٹ جائیں گے خود ہی فاصلے
چشم و لب کا آپ اک ہموار جادہ کیجیے

ہونٹوں پہ تبسم کی ادا کھیل رہی ہے

ہونٹوں پہ تبسم کی ادا کھیل رہی ہے
دو سرخ گلابوں سے صبا کھیل رہی ہے
دزدیدہ نگاہوں میں کئی تیر سجے ہیں
ابرو کی کمانوں میں قضا کھیل رہی ہے
سمجھو نہ الجھ بیٹھے ہیں رخسار سے گیسو
سورج کی تمازت سے گھٹا کھیل رہی ہے

شام بے کیف سہی شام ہے ڈھل جائے گی

شام بے کیف سہی، شام ہے ڈھل جائے گی
دن بھی نکلے گا، طبیعت بھی سنبھل جائے گی
اس قدر تیز ہے دل میں مِرے امید کی لَو
نا امیدی مِرے پاس آئی تو جل جائے گی
نرم شانوں پہ نہ بکھراؤ گھنیری زلفیں
ان گھٹاؤں سے شبِ تار دہل جائے گی

کنارے تاج کے رقصاں جسے پانی میں دیکھا ہے

کنارے تاج کے رقصاں جسے پانی میں دیکھا ہے
اسے ہم نے پریشاں تیری پیشانی میں دیکھا ہے
ڈراتا ہے اسے ناداں زمانہ موج و طوفاں سے
وہ جس نے خواب ہی ساحل کے طغیانی میں دیکھا ہے
جو منظر اہلِ بِینش آج دنیا کو دِکھاتے ہیں
میری آنکھوں نے اس کو دورِ نادانی میں دیکھا ہے

بات کم کیجے ذہانت کو چھپاتے رہیے

بات کم کیجے، ذہانت کو چھپاتے رہئے
اجنبی شہر ہے یہ، دوست بناتے رہئے
دشمنی لاکھ سہی، ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے، ہاتھ ملاتے رہئے
یہ تو چہرہ کا فقط عکس ہے تصویر نہیں
اس پہ کچھ رنگ ابھی اور چڑھاتے رہئے

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
ایک بے چین سی امید ہے چہرہ چہرہ
جس طرف دیکھئے آنے کو ہے آنے والا
اس کو رخصت تو کيا تھا، مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گيا، گھر چھوڑ کے جانے والا

کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا

کہیں سے لَوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
ستارے زیرِ قدم رات آئے ہیں کیا کیا 
نشیبِ ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے
فرازِ دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا
جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا
تمام زخمِ جگر، مسکرائے ہیں کیا کیا

وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد

وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد 
دادِ سخن ملی مجھے ترکِ سخن کے بعد
اعلانِ حق میں خطرۂ دار و رسن تو ہے 
لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد
دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے 
ٹھہرا نہ دل کہیں بھی تری انجمن کے بعد

ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں

ہم اپنے آپ سے بے گانے تھوڑی ہوتے ہیں
سرور و کیف میں دیوانے تھوڑی ہوتے ہیں
گِنا کرو نہ پیالے ہمیں پلاتے وقت
ظروفِ طرف کے پیمانے تھوڑی ہوتے ہیں
براہِ راست اثر ڈالتے ہیں سچ بول
کسی دلیل سے منوانے تھوڑی ہوتے ہیں

یہ خود کو دیکھتے رہنے کی ہے جو خو مجھ میں

یہ خود کو دیکھتے رہنے کی ہے جو خو مجھ میں
چھپا ہوا ہے کہیں وہ شگفتہ رو مجھ میں
مہ و نجوم کو تیری جبیں سے نسبت دوں
اب اس قدر بھی نہیں عادتِ غلو مجھ میں
تغیراتِ جہاں، دل پہ کیا اثر کرتے
ہے تیری اب بھی وہی شکل ہو بہو مجھ میں

گزرے گی اب نہ غم کا مداوا کئے بغیر

گزرے گی اب نہ غم کا مداوا کئے بغیر
بنتی نہیں اجل سے تقاضا کئے بغیر
دل کامیابِ شوق ہے بے منتِ نگاہ
جلوے ہیں دلفریب تماشا کئے بغیر
الله رے اعتمادِ محبت، کہ آج تک
ہر درد کی دوا ہیں وہ اچھا کئے بغیر

موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے

موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے
زندگی درد بنائی تھی، دوا سے پہلے
کاٹ ہی دیں گے قیامت کا دن اک اور سہی
دن گزارے ہیں محبت میں قضا سے پہلے
دو گھڑی کے لیے میزانِ عدالت ٹھہرے
کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے

طالب منصب و جاہ بھی ہو سکتا ہوں میں

طالبِ منصب و جاہ بھی ہو سکتا ہوں میں
کبھی کبھی گمراہ بھی ہو سکتا ہوں میں
کر سکتا ہوں حملہ اپنے لشکر پر
دشمن کے ہمراہ بھی ہو سکتا ہوں میں
دے سکتا ہوں اصل بیان کٹہرے میں
تیرے خلاف گواہ بھی ہو سکتا ہوں میں

تصویر ذہن میں نہیں تیرے جمال کی

تصویر ذہن میں نہیں تیرے جمال کی
آباد ہو کے لٹ گئی دنیا خیال کی
دامن کشِ حواس ہے وحشت خیال کی
کتنی جنوں اثر ہے بہار اب کے سال کی
میں صورتِ چراغ جلا اور بجھ گیا
لایا تھا عمر مانگ کے شامِ وصال کی

کیا جانے میں جانا ہے کہ جاتے ہو خفا ہو کر

کیا جانے میں جانا ہے کہ جاتے ہو خفا ہو کر
میں جب جانوں مِرے دل سے چلے جاؤ جدا ہو کر
تصور آپ کا، کیا کیا فریبِ جلوہ دیتا ہے
کہ رہ جاتا ہوں میں اکثر، ہم آغوشِ ہوا ہو کر
وہ پروانہ ہوں، میری خاک سے بنتے ہیں پروانے
وہ دیپک ہوں، کہ انگارے اُڑاتا ہوں فنا ہو کر

مجھ میں وہ تاب ضبط شکایت کہاں ہے اب

مجھ میں وہ تابِ ضبطِ شکایت کہاں ہے اب
چھیڑو نہ تم کہ میرے بھی منہ میں زباں ہے اب
وہ دن گئے کہ حوصلۂ ضبطِ راز تھا
چہرے سے اپنے شورشِ پنہاں عیاں ہے اب
جس دل کو قیدِ ہستئ دنیا سے ننگ تھا
وہ دل اسیرِ حلقۂ زلفِ بتاں ہے اب

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا

دل سے خیالِ دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
تم کو ہزارشرم سہی، مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
مے تند و ظرفِ حوصلۂ اہلِ بزم تنگ
ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا

جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہوں رقیب جدا

جدا ہوں یار سے ہم، اور نہ ہوں رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر ۔۔۔  جدا نصیب جدا
جدا نہ دردِ جدائی ہو، گر مِرے اعضاء
حروفِ درد کی صورت ہوں، ہے طبیب جدا
ہے اور علم و ادب، مکتبِ محبت میں
کہ ہے، وہاں کا معلم جدا، ادیب جدا

کون سا ہمدم ہے تیرے عاشق بے دم کے پاس

کون سا ہمدم ہے تیرے عاشقِ بے دَم کے پاس
غم ہے اس کے پاس ہمدم، اور وہ ہے دَم کے پاس
ہم کو کیا ساقی، جو تھا جامِ جہاں بِیں جَم کے پاس
تیرا جامِ بادہ ہو، اور تُو ہو  اِس پُرغم کے پاس
خط کہاں آغاز ہے پشتِ لبِ دلدار پر
ہیں جنابِ خضرؑ آئے عیسٰئ مریم کے پاس

آج کی رات کٹے گی کیوں کر ساز نہ جام نہ تو مہمان

آج کی رات کٹے گی کیونکر، ساز نہ جام نہ تُو مہمان
صبح تلک کیا جانئے کیا ہو، آنکھ لگے یا جائے جان
پچھلی رات کا سناٹا کہتا ہے، اب کیا آئیں گے
عقل یہ کہتی ہے سو جاؤ، دل کہتا ہے ایک نہ مان
ملکِ طرب کے رہنے والو، یہ کیسی مجبوری ہے
ہونٹوں کی بستی میں چراغاں، دل کے نگر اتنے سنسان

دولت غم اپنے ہی اوپر ہم نے خوب لٹائی

دولتِ غم اپنے ہی اوپر ہم نے خوب لٹائی
سارے جہاں میں کوئی نہ ہو گا ہم سا حاتم طائی
ہم نے کہا تھا پچھتاؤ گے، جانے کیسی ساعت تھی
چھوٹے منہ سے نکلی ہوئی بھی بات بڑی کہلائی
فہم و فراست خواب کی باتیں جاگتی دنیا پاگل ہے
عقل کا سورج ماند ہوا ہے ذروں کی بن آئی

کبھی قاتل کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے

کبھی قاتل، کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے
ہائے کیا چیز یہ سینے کی جلن ہوتی ہے
چھیڑئیے قصۂ اغیار ہی، ہم سن لیں گے
کچھ تو کہئے کہ خموشی سے گھٹن ہوتی ہے
یادِ ماضی ہے کہ نیزے کی انی، کیا کہئے
ذہن میں ایسی چبھن، ایسی چبھن ہوتی ہے

بڑے غضب کا ہے یارو بڑے عذاب کا زخم

بڑے غضب کا ہے یارو! بڑے عذاب کا زخم
اگر شباب ہی ٹھہرا میرے شباب کا زخم
ذرا سی بات تھی، کچھ آسماں‌ نہ پھٹ پڑتا
مگر ہرا ہے ابھی تک تیرے جواب کا زخم
زمیں کی کوکھ ہی زخمی نہیں‌ اندھیروں ‌سے
ہے آسماں کے بھی سینے پہ آفتاب کا زخم

لہو سے خود کو سنوارے ہوئے ہیں سنگ دلاں

لہو سے خود کو سنوارے ہوئے ہیں سنگدلاں
صدف کی موت ہے زیبِ گلوئے ماہ وشاں
نہ کوہکن ہی رہا، اور نہ خسروی باقی
ہماری راہ میں حائل ہے اب بھی سنگِ گراں
ہوا ہے پیرِ خرابات کا بھی نشہ ہرن
چلی ہے جب سے حرم میں ہوائے عشقِ بتاں

اس عہد بے اساس پہ کیا تبصرہ کریں

اس عہدِ بے اساس پہ کیا تبصرہ کریں
ٹوٹے ہوئے گلاس پہ کیا تبصرہ کریں
ناقص بیان، اس پہ کہانی میں اتنے جھول
ہم ایسے اقتباس پہ کیا تبصرہ کریں
لٹنے کی اپنا کارواں، جس کو خبر نہ ہو
اس ہوش پہ، حواس پہ کیا تبصرہ کریں

سروں پر ہوں جو آویزاں وہ جھومر ٹوٹ جاتے ہیں

سروں پر ہوں جو آویزاں وہ جھومر ٹوٹ جاتے ہیں
جہاں ضد آڑ بن جائے، وہاں گھر ٹوٹ جاتے ہیں
سنا ہے دل تو شیشے سے بھی نازک چیز ہوتی ہے
دباؤ بڑھنے لگتا ہے، تو پتھر ٹوٹ جاتے ہیں
کبھی موجیں کناروں پر بلا کا عیش کرتی ہیں
کبھی ساحل سے ٹکرا کر سمندر ٹوٹ جاتے ہیں

ہے دکھاوے کا پیار باتوں میں

ہے دکھاوے کا پیار باتوں میں
سب ہیں اک دوسرے کی گھاتوں میں
عید سے، رنگ اور پتنگ، خفا
گاؤں اب بٹ گیا ہے ذاتوں میں
دیر سے کون گھر کو آتا ہے
کیوں بھڑکتی ہے شمع راتوں میں

دیکھ اے شعلہ بدن حوصلہ داری میری

دیکھ اے شعلہ بدن حوصلہ داری میری
خاک تھا، اور رہی آگ سے یاری میری
روک لو اب بھی کسی طرح مِرے اشک رواں
یہ نہ ہو تم بھی کرو گریہ و زاری میری
کچھ نہیں کُھلتا یہ کیا لوگ ہیں اور کیسی قطار
سب کے آخر میں بھی آئی نہیں باری میری

خدا کا شکر ہے انکار کی طرف آیا

خدا کا شکر ہے انکار کی طرف آیا
میں بیڑیوں سے بندھا دار کی طرف آیا
یہ طشتری میں دھرا سر مری گواہی ہے
میں ایک دشت سے دربار کی طرف آیا
کوئی تو آگ مرے خون میں دھکتی ہے
میں پھول چھوڑ کے تلوار کی طرف آیا

لرزتے ٹوٹتے گرتے ہوئے جہاں سے نکل

لرزتے ٹوٹتے گرتے ہوئے جہاں سے نکل
زیادہ خوفزدہ ہے تو اس مکاں سے نکل
ہمارے دل کا تعلق نہیں زمانے سے
سو اپنی خواہشِ دنیا اٹھا، یہاں سے نکل
ترے جمال کی لَو تیرے بعد رہ جائے
دِئیے جلاتا ہوا اس جہانِ جاں سے نکل

مجھے بجھا دے مرا دور مختصر کر دے

مجھے بجھا دے، مِرا دور مختصر کر دے
مگر دِیے کی طرح مجھ کو معتبر کر دے
مری تلاش کو بے نام و بے سفر کر دے
میں تیرا راستہ چھوڑوں تو دربدر کر دے
بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کی عمر ہی کتنی
میں تیری رات ہوں آ جا میری سحر کر دے

میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا

میں اس امید  پہ ڈوبا کہ تُو بچا لے گا
اب اس کے بعد میرا امتحان کیا لے گا
یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر ایک اپنا راستا لے گا
میں بجھ گیا تو ہمیشہ کو بجھ ہی جاؤں گا
کوئی چراغ نہیں ہوں جو پھر جلا لے گا

لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں‌ ہوتا

لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں‌ ہوتا
ہمارے دور میں آنسو زباں نہیں ہوتا
جہاں رہے گا، وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
بس اک نگاہ مری راہ دیکھتی ہو گی
یہ سارا شہر، مرا میزباں نہیں ہوتا

زندگی تجھ پہ اب الزام کوئی کیا رکھے

زندگی تجھ پہ اب الزام کوئی کیا رکھے
اپنا احساس ہی ایسا ہے جو تنہا رکھے
کن شکستوں کے شب و روز سے گزرا ہو گا
وہ مصور جو ہر اک نقش ادھورا رکھے
خشک مٹی ہی نے جب پاؤں جمانے نہ دیئے
بہتے دریا سے پھر امید کوئی کیا رکھے

Friday, 21 November 2014

غنیم سے بھی عداوت میں حد نہیں مانگی

غنِیم سے بھی عداوت میں حد نہیں مانگی
کہ ہار مان لی، لیکن مدد نہیں مانگی
ہزار لشکر کہ ہم اہلِ حرفِ زندہ نے
مجاورانِ ادب سے سند نہیں مانگی
بہت ہے لمحۂ موجود کا شرف بھی مجھے
سو، اپنے فن سے بقائے ابد نہیں مانگی

جو بھی درون دل ہے وہ باہر نہ آئے گا

جو بھی درونِ دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
اب آگہی کا زہر زباں پر نہ آئے گا
اب کے بچھڑ کے اس کو ندامت تھی اس قدر
جی چاہتا بھی ہو تو پلٹ کر نہ آئے گا
یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لیے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا

کسی کی بزم میں اس احتمال سے بھی گئے

کسی کی بزم میں اس احتمال سے بھی گئے
کہ وہ نہ سمجھے کہ ہم عرضِ حال سے بھی گئے
ہمِیں تو تھے کبھی معیار دوسروں کے لئے
ہمِیں تو ہیں کہ اب اپنی مثال سے بھی گئے
وہ دن بھی تھے کہ نہ کٹتی تھی ایک شامِ فراق
یہ دن بھی ہیں کہ غمِ ماہ و سال سے بھی گئے

میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے

 میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے

میرے بازوؤں پہ نگاہ کر، جو غرور تھا وہ غرور ہے

ابھی رزم گاہ کے درمیاں ہے میرا نشاں کُھلا ہوا

ابھی تازہ دم ہے میرا فرس نئے معرکوں پہ تُلا ہوا

مجھے دیکھ قبضۂ تیغ پر ابھی میرے ہاتھ کی گرفت ہے

بڑا منتقم ہے میرا لہو، یہ میرے نسب کی سرشت ہے

جب یار نے رخت سفر باندھا کب ضبط کا یارا اس دن تھا

جب یار نے رختِ سفر باندھا کب ضبط کا یارا اس دن تھا
ہر درد نے دل کو سہلایا، کیا حال ہمارا اس دن تھا
جب خواب ہوئیں اس کی‌ آنکھیں جب دھند ہوا اس کا چہرہ
ہر اشک ہمارا اس شب تھا، ہر زخم انگارا اس دن تھا
سب یاروں کے ہوتے سوتے ہم کس سے گلے مل کر روتے
کب گلیاں اپنی گلیاں تھیں، کب شہر ہمارا اس دن تھا

وہ ظلمتیں ہیں کہ شاید قبول شب بھی نہ ہوں

وہ ظلمتیں ہیں کہ شاید قبولِ شب بھی نہ ہوں
مگر حصارِ فلک میں شگاف اب بھی نہ ہوں
تمام شہر ہے شائستگی کا زہر پیئے
نجانے کیا ہو جو دوچار بے ادب بھی نہ ہوں
وہ ساعتیں ہیں، عنایاتِ چشم و لب تو گئیں
وہ چاہتے ہیں‌، حکایاتِ چشم و لب بھی نہ ہوں

جو رنجشیں تھیں جو دل میں ‌غبار تھا نہ گیا

جو رنجشیں تھیں جو دل میں ‌غبار تھا نہ گیا
کہ اب کی بار گلے مِل کے بھی گِلہ نہ گیا
اب اس کے وعدۂ فردا کو ترستے ہیں
کل اس کی بات پہ کیوں اعتبار آ نہ گیا
اب اسکے ہجر میں روئیں نہ وصل میں‌ خوش ہوں
وہ دوست ہو بھی تو سمجھو کہ دوستانہ گیا

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے
پسر ہے جو علی کا اور محمدؐ کا نواسہ ہے
تضاداتِ مشیت دیکھیے، اس کے حوالے سے
جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسہ ہے
برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی
مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے

جاگتی آنکھوں ماضی بن کر کھڑے کھڑے سو جائے گا

جاگتی آنکھوں ماضی بن کر کھڑے کھڑے سو جائے گا
پیچھے مڑ کر دیکھنے والا، پتھر کا ہو جائے گا
درد کی مٹی بھی نم ہے اور نیند بھی آنکھوں میں کم ہے
پچھلی رات کا چاند تری سانسوں میں دُکھ بو جائے گا
شُوکتی ڈستی راتوں میں تُو کس کی کھوج میں نکلا ہے
لوٹ بھی جا دیوانے، تُو اس جنگل میں کھو جائے گا

اس کی زلف کے سائے سائے چلا کرو

اس کی زلف کے سائے سائے چلا کرو
جلتے لوگو! کچھ تو اپنا بھلا کرو
پیار کی آنچ نکھار کا باعث بنتی ہے
جلنا ہے تو پیار کی آگ میں جلا کرو
پیڑ یہاں کچھ سدابہار بھی ہوتے ہیں 
کوئی موسم ہو تو تم پھولا پھلا کرو

سپنوں کا بنجارا ۔۔۔۔۔۔۔ فیض

سپنوں کا بنجارا ۔۔۔۔۔۔۔ فیضؔ

وہ ایک ایسا شخص
جس کے لیے
بس ایک رائے سب کی تھی
پیارا، بُہت پیارا ہے وہ"
سپنے سُہانے پیار کے
بانٹے جو گاؤں گاؤں میں
"ایک ایسا بنجارہ ہے وہ

پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے

پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے
آئی نہ صدا لیکن ٹوٹی ہوئی دھڑکن سے

کچھ اور بھی ساجن کے دھوکے میں یہ دل رہتا 
آتا نہ یقیں مجھ کو، گر اور کوئی کہتا
دیکھا اسے خود میں نے ملتے ہوئے سوتن سے
پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے

دیا جلے ساری رات

دِیا جلے ساری رات
جل جل جائے، نِیر بہائے، مجھ بِرہن کے سات
دِیا جلے ساری رات

پہنے سر پر تاج اگن کا، بھیدی میرے دل کی جلن کا
لایا اس اندھیارے گھر میں اشکوں کی سوغات
دِیا جلے ساری رات

میں روح بے ضمیر ہوں اور بے لباس ہوں

میں رُوحِ بے ضمیر ہوں اور بے لباس ہوں
 دنیا سمجھ رہی ہے حقیقت شناس ہوں
 محدود میری ذات کے محورمیں میری سوچ
 بیدار و ہوشیار، بقیدِ حواس ہوں
مں نے فصیلِ جاہ پہ ڈالی سدا کمند
ہر پُرکشش مقام کے میں آس پاس ہوں

چوراہے پر کھڑا ہوں مجھے ووٹ دیجئے

عرض کیا ہے

چوراہے پر کھڑا ہوں مجھے ووٹ دیجئے
میں مردِ پارسا ہوں مجھے ووٹ دیجئے
مجھ پر فریب و مکر کے الزام تھے غلط
کل ہی رِہا ہوا ہوں مجھے ووٹ دیجئے
آتے ہیں حیلے حربے سیاست کے سب مجھے
تھوڑا پڑھا لکھا ہوں مجھے ووٹ دیجئے

ہم نے دیکھ رکھی ہیں منصفوں کی تحریریں

ہم نے دیکھ رکھی ہیں منصفوں کی تحریریں
اڑ رہی ہیں رستوں میں فیصلوں کی تحریریں
چاہے وہ زمیں پر ہو، یا ہو آسمانوں میں
ہاتھ میں نہیں ہوتیں قسمتوں کی تحریریں
خواب لکھنے بیٹھا ہے سوچ لے مگر اتنا
منہ چڑائیں گی تیرا خواہشوں کی تحریریں

ایک بے چینی سی در آئی مری وحشت میں

ایک بے چینی سی در آئی مِری وحشت میں
اس کی پھر یاد اتر آئی مری وحشت میں
ڈھونڈنے خود کو میں نکلا تھا، ملا کچھ بھی نہیں
مجھ کو وحشت ہی نظر آئی مری وحشت میں
میں نبھانے کو نبھا لیتا تِرے سب وعدے
کیا کروں ضد جو اتر آئی مری وحشت میں

چاند، تاروں کے جو انبار پہ رکھا ہوا ہے

چاند، تاروں کے جو انبار پہ رکھا ہوا ہے
اک دِیا ہم نے بھی دیوار پہ رکھا ہوا ہے
تم نے کاٹی ہے کہیں دِیپ جلاتے ہوئے رات
ہم نے بھی ہجر کو آزار پہ رکھا ہوا ہے
جب کسی طور بدلتا ہی نہیں تو ہم نے
اپنا دکھ عرصۂ دشوار پہ رکھا ہوا ہے

کر صبح و شام ورد حسینوں کے نام کا

کر صبح و شام وِرد، حسینوں کے نام کا
فرمان ہے یہ عِشق علیہ السلام کا 
پروردگار مان کے اپنے ضمیر کو 
جھگڑا چُکا دیا ہے "رحیم" اور"رام" کا
ہم پر کھلا ہے جب سے ان آنکھوں کا میکدہ
اس دن سے نام تک نہ لیا ہم نے جام کا

جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے

جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے
محبت کا جنازہ جا رہا ہے

نصیبوں نے دکھایا کیا تماشا
اٹھا محمل میں ارمانوں کا لاشہ
زمانہ قہقہے برسا رہا ہے
محبت کا جنازہ جا رہا ہے

Thursday, 20 November 2014

یہ ہے تو سب کے لیے ہو یہ ضد ہماری ہے

یہ ہے تو سب کے لیے ہو یہ ضد ہماری ہے
اس ایک بات پہ دنیا سے جنگ جاری ہے
اڑان والو! اڑانوں پہ وقت بھاری ہے
پروں کی اب کے نہیں حوصلوں کی باری ہے
میں قطرہ ہو کے بھی طوفان سے جنگ لیتا ہوں
مجھے بچانا سمندر کی ذمہ داری ہے

میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا

میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا
لیکن میری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا
سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ
لیکن تیرے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا
جاتی ہے چلی جائے یہ مے خانے کی رونق
کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا​

ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر

ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اس کے بغیر، اس کی تمنا کیے بغیر
انبار اس کا پردۂ حرمت بنا میاں
دیوار تک نہیں گری، پردہ کیے بغیر
یاراں! وہ جو ہے میرا مسیحائے جان و دل
بے حد عزیز ہے مجھے، اچھا کیے بغیر

عیش امید ہی سے خطرہ ہے

عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے
دل کو اب دلدہی سے خطرہ ہے
ہے کچھ ایسا کہ اسکی جلوت میں
ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے
جس کی آغوش کا ہوں دیوانہ
اس کی آغوش ہی سے خطرہ ہے

سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا

سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب تِرا دھیان بھی اتنا نہ رہا

وہی راتوں کی بیداری ہے اب تک

وہی راتوں کی بیداری ہے اب تک
تمنا کا سفر جاری ہے اب تک
خیالِ ضبط، اور ترکِ تعلق
یہی پتھر بہت بھاری ہے اب تک
اکیلی چاندنی راتوں میں دل کو
سلگ اٹھنے کی بیماری ہے اب تک

چراغ ہاتھ میں ہو تو ہوا مصیبت ہے

چراغ ہاتھ میں ہو تو ہوا مصیبت ہے
سو مجھ مریضِ انا کو شفا مصیت ہے
سہولتیں تو مجھے راس ہی نہیں آتیں
قبولیت کی گھڑی میں دعا مصیبت ہے
اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یونہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے

دن لے کے جاؤں ساتھ اسے شام کر کے آؤں

دن لے کے جاؤں ساتھ، اسے شام کر کے آؤں
بے کار کے سفر میں کوئی کام کر کے آؤں
بے مول کر گئیں مجھے گھر کی ضرورتیں
اب اپنے آپ کو کہاں نیلام کر کے آؤں
میں اپنے شور و شر سے کسی روز بھاگ کر
اک اور جسم میں کہیں آرام کر کے آؤں

ہم سایہ دار پیڑ زمانے کے کام آئے

ہم سایہ دار پیڑ زمانے کے کام آئے
جب سوکھنے لگے تو جلانے کے کام آئے
تلوار کی نیام کبھی پھینکنا نہیں
ممکن ہے دشمنوں کو ڈرانے کے کام آئے
کچا سمجھ کے بیچ نہ دینا مکان کو
شائد کبھی یہ سر کو چھپانے کے کام آئے

مولیٰ یہ تمنا ہے کہ جب جان سے جاؤں

مولیٰ یہ تمنا ہے کہ جب جان سے جاؤں
جس شان سے آیا ہوں اسی شان سے جاؤں
بچوں کی طرح پیڑوں کی شاخوں سے میں کودوں
چڑیوں کی طرح اڑ کے میں کھلیان سے جاؤں
ہر لفظ مہکنے لگے، لکھا ہوا میرا
میں لپٹا ہوا یادوں کے لوبان سے جاؤں

سیاہ ہجر گیا زرد انتظار گئے

سیاہ ہجر گیا، زرد انتظار گئے
کسی کا درد گیا، درد کے حصار گئے
اداس رات‘ خزاں ہم سفر‘ سفر گمنام
ترے خیال کے موسم ہمیں تو مار گئے
نہ جاں بھڑکتی ہے اپنی، نہ راکھ ہوتے ہیں
ہمیں یہ کیسی مصیبت میں تم اتار گئے

یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے

یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے
یہ محبتوں کا قصور ہے
تیرا آسمان قریب تھا
میرا آسمان تو دور ہے
مجھے کہہ رہی وہ عزم سے
مجھے تم کو پانا ضرور ہے

یہ شعر کی دیوی ہے بہروپ تو دھارے گی

یہ شعر کی دیوی ہے بہروپ تو دھارے گی
باہر سے اجاڑے گی، اندر سے سنوارے گی
جب ٹوٹ گئے سمبندھ، پھر کون سے رشتے سے
میں کس کو صدا دوں گا، تُو کس کو پکارے گی
بوچھاڑ یہ بارش کی گزرے ہوئے لمحوں کو
کھڑکی سے دریچے سے، کمرے میں اتارے گی

بے سود ہمیں روزن دیوار سے مت دیکھ

بے سود ہمیں روزنِ دیوار سے مت دیکھ
ہم اجڑے ہوئے لوگ، ہمیں پیار سے مت دیکھ
پستی میں بھٹکنے کی ندامت نہ سوا کر
مڑ مڑ کے مجھے رفعتِ کہسار سے مت دیکھ
قیمت نہ لگا جذبۂ ایثارِ طلب کی
ہر شے کو فقط چشمِ خریدار سے مت دیکھ

چلو ظلمت کا یہ اندھا سفر آسان کر جائیں

چلو ظلمت کا یہ اندھا سفر آسان کر جائیں
کسی کے کام آئیں اپنی‌آنکھیں دان کر جائیں
بہت دن رہ لیے اس جسم میں، اب یہ ارادہ ہے
یہ گھر خالی کریں، اس شہر کو ویران کر جائیں
ہم ایسے لوگ ہیں، اپنی جدائی کے سمندر میں
ہر اک ساحل کو لے ڈوبیں، نگر سنسان کر جائیں

یہ حسیں لوگ ہیں تو ان کی مروت پہ نہ جا

یہ حسیں لوگ ہیں، تُو ان کی مروت پہ نہ جا
خود ہی اٹھ بیٹھ، کسی اذن و اجازت پہ نہ جا
صورتِ شمع تِرے سامنے روشن ہیں جو پھول
ان کی کرنوں میں نہا، ذوقِ سماعت پہ نہ جا
دل سی چیک بک ہے تِرے پاس تجھے کیا دھڑکا
جی کو بھا جائے، تو پھر چیز کی قیمت پہ نہ جا

مجھے حوصلہ تو دیتے جو مرے شریک غم ہیں

مجھے حوصلہ تو دیتے جو مرے شریکِ غم ہیں
میں بھگت رہا ہوں تنہا جو عذاب بیش و کم ہیں
کوئی پھول جیسی تتلی، نہ ستارے جیسا جگنو
تیرے بعد بس اندھیرے سرِ باغ ہمقدم ہیں
مجھے چھوڑنے سے پہلے یہ جتا دیا تھا اس نے
یہ کٹھن رہِ سفر ہے کئی اس میں پیچ و خم ہیں

یہ ٹھیک ہے کہ بہت وحشتیں بھی ٹھیک نہیں

یہ ٹھیک ہے کہ بہت وحشتیں بھی ٹھیک نہیں
مگر، ہماری ذرا عادتیں بھی ٹھیک نہیں
اگر ملو تو, کھلے دل کے ساتھ ہم سے ملو
کہ رسمی رسمی سی یہ چاہتیں بھی ٹھیک نہیں
تعلقات میں گہرائیاں تو اچھی ہیں
کسی سے اتنی مگر قربتیں بھی ٹھیک نہیں

رنجش کوئی رکھتا ہے تو پھر بات بھی سن لے

رنجش کوئی رکھتا ہے تو پھر بات بھی سن لے
وہ مجھ سے ذرا صورتِ حالات بھی سن لے
دھڑکن کی زباں سے میں بتاؤں گا کسی دن
کیا اس کے لیے ہیں مِرے جذبات بھی سن لے
کس طرح سے رسوائی گوارا ہوئی ہم کو
جو دل نے سہے پیار کے صدمات بھی سن لے

Wednesday, 19 November 2014

شب نشاط تھی یا صبح پر ملال تھی وہ

شبِ نشاط تھی یا صبحِ پُر ملال تھی وہ
تھکن سے چُور تھا میں نیند سے نڈھال تھی وہ
میں اس کی ہمسفری میں بھی دل گرفتہ رہا
کہ ہر قدم پہ جدائی کا احتمال تھی وہ
اِدھر اُدھر کے بھی کردار آتے جاتے رہے
میرے سخن کا مگر مرکزی خیال تھی وہ

تجھ کو بھولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا

تجھ کو بھولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا
اب کے لگتا ہے کہ یہ دکھ ہی ٹھکانے کا نہ تھا
یہ جو مقتل سے بچا لائے سروں کو اپنے
ان میں اک شخص بھی کیا میرے گھرانے کا نہ تھا
ہر برس تازہ کیا عہدِ محبت کو عبث
اب کھلا ہے کہ یہ تہوار منانے کا نہ تھا

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا مرا چہرہ ہے، سمندر تیری آنکھیں
پھر کون بھلا دادِ تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے، لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تیری آنکھیں

یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں

پچھلے عشق کی باتیں 

یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
جب آنکھ میں‌ خواب دمکتے تھے
جب دل میں داغ چمکتے تھے
جب پلکیں شہر کے رستوں میں 
اشکوں کا نور لٹاتی تھیں

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح

ہمارا کیا ہے

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح
اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہو گی
کہ جیسے تند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے، چمک کے کھو جائے
پھر اس کے بعد کسی کو نہ کچھ سجھائی دے
نہ شب کٹے، نہ سراغِ سحر دکھائی دے

بہار کیا اب خزاں بھی مجھ کو گلے لگائے

بہار کیا، اب خزاں بھی مجھ کو گلے لگائے تو کچھ نہ پائے
میں برگِ صحرا ہوں، یوں بھی مجھ کو ہوا اڑائے تو کچھ نہ پائے
میں پستیوں میں پڑا ہوا ہوں، زمیں کے ملبوس میں جڑا ہوں
مثالِ نقشِ قدم پڑا ہوں، کوئی مٹائے، توکچھ نہ پائے
تمام رسمیں ہی توڑ دی ہیں، کہ میں نے آنکھیں ہی پھوڑ دی ہیں
زمانہ اب مجھ کو آئینہ بھی، مرا دکھائے تو کچھ نہ پائے

رہ وفا میں اذیت شناسائیاں نہ گئیں

رہِ وفا میں اذیت شناسائیاں نہ گئیں
کسی بھی رت میں ہماری اداسیاں نہ گئیں
تنی ہے ابر کی چادر بھی آسماں پہ، مگر
شعاعِ مہر، تیری بے لباسیاں نہ گئیں
تیرے قریب بھی رہ کر تجھے تلاش کروں
محبتوں میں میری بدحواسیاں نہ گئیں

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی

ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا، فراغت اسے بھی تھی

کیا خزانے مری جاں ہجر کی شب یاد آئے

کیا خزانے مری جاں، ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے
ایک تُو تھا جسے غربت میں پکارا دل نے
ورنہ بچھڑے ہوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پل بھر سوچا
دکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبب یاد آئے

شام غم جب بکھر گئی ہو گی

شامِ غم جب بکھر گئی ہو گی
جانے کس کس کے گھر گئی ہو گی
اتنی لرزاں نہ تھی چراغ کی لَو
اپنے سائے سے ڈر گئی ہو گی
چاندنی ایک شب کی مہماں تھی
صبح ہوتے ہی مر گئی ہو گی

کچھ اس ادا سے میرے یار سرکشیدہ ہوئے

کچھ اس ادا سے میرے یار سرکشیدہ ہوئے
کہ فتح پا کے بھی قاتل علم دریدہ ہوئے
عجیب طور سے ڈوبا ہے ڈوبنے والا
کہ ساحلوں کے بگولے بھی آبدیدہ ہوئے
جو اپنے سائے کی قامت سے خوف کھاتے ہیں
ہمارے بعد وہی لوگ برگزیدہ ہوئے

زندگی بھر عذاب سہنے کو

زندگی بھر عذاب سہنے کو
دل ملا ہے اداس رہنے کو
اک چپ کے ہزارہا مفہوم 
اور کیا رہ گیا ہے کہنے کو
چاند جس کی جبیں پہ جچتا ہو
وہ ترستی ہے ایک گہنے کو

محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا

محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا 
بھلا چکے ہیں اسے پھر سے یاد کیا کرنا 
وہ بے وفا ہی سہی اس پہ تہمتیں کیسی 
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا 
کچھ اس لیے بھی میں پسپا ہوا ہوں مقتل سے 
کہ بہرِ مالِ غنیمتہ جہاد کیا کرنا 

روٹھا تو شہر خواب کو غارت بھی کر گیا

رُوٹھا تو شہرِ خواب کو غارت بھی کر گیا
پھر مسکرا کے تازہ شرارت بھی کر گیا
شاید اسے عزیز تھیں آنکھیں میری بہت
وہ میرے نام اپنی بصارت بھی کر گیا
منہ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اِک چراغ
پیدا میرے لہو میں حرارت بھی کر گیا

لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو جفا کی، میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے، میں تجھے الزام دھرتا ہوں
اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل، یہ آسیب کی نگری، مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تُو کب سے مہمان ہوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرےہ مفت میں گھر ویران ہوا

کب تک تو اونچی آواز میں بولے گا

کب تک تُو اونچی آواز میں بولے گا
تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا
اپنے آنسو اپنی آنکھ میں ‌رہنے دے
ریت پہ کب تک ہیرے موتی رولے گا
آؤ شہر کی روشنیاں ہی دیکھ آئیں
کون ہماری خالی جیب ٹٹولے گا

اب اے میرے احساس جنوں کیا مجھے دینا

اب اے میرے احساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تم اپنا مکاں جب کرو تقسیم، تو یارو
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا
جب وقت کی مجروح ہوئی شاخ سنبھالو
اس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا

بھول جانا بھی اسے یاد بھی کرتے رہنا

بھول جانا بھی اسے یاد بھی کرتے رہنا
اچھا لگتا ہے اسی دھن میں بکھرتے رہنا
ہجر والوں سے بڑی دیر سے سیکھا ہے ہم نے
زندہ رہنے کے لئے جاں سے گزرتے رہنا
کیا کہوں کیوں میری نیندوں میں‌ خلل ڈلتا ہے
چاند کے عکس کا پانی میں اترتے رہنا

تعزیر اہتمام چمن کون دے گیا

تعزیرِ اہتمامِ چمن کون دے گیا
مجھ کو گلاب جیسا کفن کون دے گیا
دیکھے جو خد و خال تو سوچا ہے بارِہا
صحرا کی چاندنی کو بدن کون دے گیا
میری جبیں کی ساری لکیریں تیری عطا
لیکن تِری قبا کو شکن کون دے گیا

شامل مرا دشمن صف یاراں میں ‌رہے گا

شامل مرا دشمن صفِ یاراں میں ‌رہے گا
یہ تیر بھی پیوست رگِ جاں میں رہے گا
اک رسمِ جنوں اپنے مقدر میں رہے گا
اک چاک سدا اپنے گریباں میں رہے گا
اک اشک ہے آنکھوں میں سو چمکے گا کہاں تک
یہ چاند زدِ شامِ غریباں میں رہے گا 

خواب تھا دیدہ بیدار تلک آیا تھا

خواب تھا دیدۂ بیدار تلک آیا تھا
دشت بھٹکتا ہوا دیوار تلک آیا تھا
اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دشمن میرے کردار تلک آیا تھا
اتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ
زخم خود چل کے عزادار تلک آیا تھا

صحرا جو پکاریں بھی تو سن کر نہیں آتے

صحرا جو پکاریں بھی تو سن کر نہیں آتے
اب اہلِ جنوں شہر سے باہر نہیں آتے 
وہ کال پڑا ہے تجارت گاہِ دل میں
دستاریں تو میسر ہیں مگر سر نہیں آتے 
وہ لوگ ہی قدموں سے زمیں چھین رہے ہیں
جو لوگ میرے قد کے بھی برابر نہیں آتے

Monday, 17 November 2014

یہ عمر یہ حسن اور ناز و ادا اس پر یہ سنگھار اللہ اللہ​

یہ عمر، یہ حسن اور ناز و ادا، اس پر یہ سنگھار، اللہ، اللہ​
مستئ نِگہ اف اف کی جگہ، سینے کا ابھار، اللہ، اللہ​
یہ گیسوۓ پیچاں دامِ خِرد، یہ نرگسِ فتاں دشمنِ دِیں​
یہ عارضِ رنگیں غیرتِ گل ہستی کی بہار، اللہ، اللہ​
گالوں میں تِرے کندن کی دمک بالوں میں تِرے عنبر کی مہک​
سینے پہ جواہر کی یہ چمک، اور اس پہ یہ ہار، اللہ، اللہ​

بہار آئی کھلے گل زیب صحن بوستاں ہو کر

بہار آئی، کِھلے گُل، زیبِ صحنِ بوستاں ہو کر
عنادل نے مچائی دھوم سرگرمِ فغاں ہو کر​
بلائیں شاخ گُل کی لیں نسیمِ صبحگاہی نے​
ہوئیں کلیاں شگفتہ روئے رنگیں تپاں ہو کر​
جوانانِ چمن نے اپنا اپنا رنگ دکھلایا​
کسی نے یاسمن ہو کر، کسی نے ارغواں ہو کر​