Friday, 21 November 2014

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے
پسر ہے جو علی کا اور محمدؐ کا نواسہ ہے
تضاداتِ مشیت دیکھیے، اس کے حوالے سے
جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسہ ہے
برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی
مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے
علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے
نہ لوری پیاری اماں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے
کسی نے سر کٹایا، اور بیعت کی نہ ظالم کی
سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے
نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی
مگر ناناؐ کی امت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے
قتیلؔ اب تجھ کو بھی رکھنا ہے اپنا سر ہتھیلی پر
کہ تیرے شہر کا ماحول بھی اب کربلا سا ہے
قتیلؔ اس شخص کی تعظیم کرنا فرض ہے میرا
جو صورت اور سیرت میں محمدؐ مصطفٰیؐ سا ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment