Friday 21 November 2014

جاگتی آنکھوں ماضی بن کر کھڑے کھڑے سو جائے گا

جاگتی آنکھوں ماضی بن کر کھڑے کھڑے سو جائے گا
پیچھے مڑ کر دیکھنے والا، پتھر کا ہو جائے گا
درد کی مٹی بھی نم ہے اور نیند بھی آنکھوں میں کم ہے
پچھلی رات کا چاند تری سانسوں میں دُکھ بو جائے گا
شُوکتی ڈستی راتوں میں تُو کس کی کھوج میں نکلا ہے
لوٹ بھی جا دیوانے، تُو اس جنگل میں کھو جائے گا
بھیج نہ گھاٹ پہ اپنے بدن کو، مت کر میلا من اپنا
گھر بیٹھے وہ آ کر سارے داغ ترے دھو جائے گا
دروازوں کی اوٹ میں کھنکے کنگن جہاں ہزار قتیلؔ
کچھ بھی کر لے ان گلیوں میں دھیان ترا تو جائے گا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment