جاگتی آنکھوں ماضی بن کر کھڑے کھڑے سو جائے گا
پیچھے مڑ کر دیکھنے والا، پتھر کا ہو جائے گا
درد کی مٹی بھی نم ہے اور نیند بھی آنکھوں میں کم ہے
پچھلی رات کا چاند تری سانسوں میں دُکھ بو جائے گا
شُوکتی ڈستی راتوں میں تُو کس کی کھوج میں نکلا ہے
بھیج نہ گھاٹ پہ اپنے بدن کو، مت کر میلا من اپنا
گھر بیٹھے وہ آ کر سارے داغ ترے دھو جائے گا
دروازوں کی اوٹ میں کھنکے کنگن جہاں ہزار قتیلؔ
کچھ بھی کر لے ان گلیوں میں دھیان ترا تو جائے گا
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment