جو رنجشیں تھیں جو دل میں غبار تھا نہ گیا
کہ اب کی بار گلے مِل کے بھی گِلہ نہ گیا
اب اس کے وعدۂ فردا کو ترستے ہیں
کل اس کی بات پہ کیوں اعتبار آ نہ گیا
اب اسکے ہجر میں روئیں نہ وصل میں خوش ہوں
نگاہِ یار کا کیا ہے، ہوئی نہ ہوئی
یہ دل کا درد ہے، پیارے گیا نہ گیا
سبھی کو جان تھی پیاری سبھی تھے لب بستہ
بس اک فرازؔ تھا ظالم سے چپ رہا نہ گیا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment