Friday 21 November 2014

جو رنجشیں تھیں جو دل میں ‌غبار تھا نہ گیا

جو رنجشیں تھیں جو دل میں ‌غبار تھا نہ گیا
کہ اب کی بار گلے مِل کے بھی گِلہ نہ گیا
اب اس کے وعدۂ فردا کو ترستے ہیں
کل اس کی بات پہ کیوں اعتبار آ نہ گیا
اب اسکے ہجر میں روئیں نہ وصل میں‌ خوش ہوں
وہ دوست ہو بھی تو سمجھو کہ دوستانہ گیا
نگاہِ یار کا کیا ہے، ہوئی نہ ہوئی
یہ دل کا درد ہے، پیارے گیا نہ گیا
سبھی کو جان تھی پیاری سبھی تھے لب بستہ
بس اک فرازؔ تھا ظالم سے چپ رہا نہ گیا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment