Friday 21 November 2014

وہ ظلمتیں ہیں کہ شاید قبول شب بھی نہ ہوں

وہ ظلمتیں ہیں کہ شاید قبولِ شب بھی نہ ہوں
مگر حصارِ فلک میں شگاف اب بھی نہ ہوں
تمام شہر ہے شائستگی کا زہر پیئے
نجانے کیا ہو جو دوچار بے ادب بھی نہ ہوں
وہ ساعتیں ہیں، عنایاتِ چشم و لب تو گئیں
وہ چاہتے ہیں‌، حکایاتِ چشم و لب بھی نہ ہوں
ہر اک پہ وا نہ کرو شہِر دل کا دروازہ
کہ آنے والوں میں دُزدانِ نیم شب بھی نہ ہوں
مجھے تو ڈر ہے شیخِ حرم کے ہاتھوں سے
کہیں مری طرح رُسوا رسول و رب بھی نہ ہوں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment