Friday 21 November 2014

جب یار نے رخت سفر باندھا کب ضبط کا یارا اس دن تھا

جب یار نے رختِ سفر باندھا کب ضبط کا یارا اس دن تھا
ہر درد نے دل کو سہلایا، کیا حال ہمارا اس دن تھا
جب خواب ہوئیں اس کی‌ آنکھیں جب دھند ہوا اس کا چہرہ
ہر اشک ہمارا اس شب تھا، ہر زخم انگارا اس دن تھا
سب یاروں کے ہوتے سوتے ہم کس سے گلے مل کر روتے
کب گلیاں اپنی گلیاں تھیں، کب شہر ہمارا اس دن تھا
جب تجھ سے ذرا غافل ٹھہرے ہر یاد نے دل پر دستک دی
جب لب پہ تمہارا نام نہ تھا، ہر دکھ نے پکارا اس دن تھا
اک تم ہی فرازؔ نہ تھے تنہا، اب کے تو بلاوا جب آیا
اک بھیڑ لگی تھی مقتل میں، ہر درد کا مارا اس دن تھا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment