Friday 21 November 2014

میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے

 میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے

میرے بازوؤں پہ نگاہ کر، جو غرور تھا وہ غرور ہے

ابھی رزم گاہ کے درمیاں ہے میرا نشاں کُھلا ہوا

ابھی تازہ دم ہے میرا فرس نئے معرکوں پہ تُلا ہوا

مجھے دیکھ قبضۂ تیغ پر ابھی میرے ہاتھ کی گرفت ہے

بڑا منتقم ہے میرا لہو، یہ میرے نسب کی سرشت ہے

میں اسی قبیلے کا فرد ہوں جو حریفِ سیلِ بلا رہا

اسے مرگزار کا خوف کیا، جو کفن بدوش سدا رہا

میرے غنیم نہ بھول تُو، کہ ستم کی شب کو زوال ہے

تیرا جبرِ ظلم بلا سہی، میرا حوصلہ بھی کمال ہے

تجھے ناز جو سن و گرز پر مجھے ناز اپنے بدن پر ہے

وہی نامہ بر ہے بہار کا، جو گلاب میرے کفن پر ہے


احمد فراز

2 comments:

  1. فرض نہیں ، فرس: گھوڑا

    ReplyDelete
    Replies
    1. سہو کی نشاندہی کے لیے مشکور ہوں سعد جی!، ٹائپو کی درستگی کر دی گئی ہے۔ امید ہے آپ اسی باریک بینی سے بلاگ کا مطالعہ جاری رکھیں گے، شکریہ، نوازش۔

      Delete