کسی کی بزم میں اس احتمال سے بھی گئے
کہ وہ نہ سمجھے کہ ہم عرضِ حال سے بھی گئے
ہمِیں تو تھے کبھی معیار دوسروں کے لئے
ہمِیں تو ہیں کہ اب اپنی مثال سے بھی گئے
وہ دن بھی تھے کہ نہ کٹتی تھی ایک شامِ فراق
سبک خرامئ اغیار کی نہ کر تقلید
کہ اس جنوں میں کئی اپنی چال سے بھی گئے
وفائے عہد کے قائل ہیں، پر کوئی وعدہ
جب ان کو یاد دلایا، تو ٹال سے بھی گئے
رفاقتوں کا بھروسا ہی کیا، گِلہ کیسا
سو میل جول تو کیا بول چال سے بھی گئے
طلسم خانۂ حیرت ہے سر بسر دنیا
جنوب سے بھی گئے شمال سے بھی گئے
بنا ہے یارِ بلا نوش محتسب جب سے
فرازؔ صحبتِ یوسف جمال سے بھی گئے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment