جو بھی درونِ دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
اب آگہی کا زہر زباں پر نہ آئے گا
اب کے بچھڑ کے اس کو ندامت تھی اس قدر
جی چاہتا بھی ہو تو پلٹ کر نہ آئے گا
یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لیے ہوئے
پھر بو رہا ہوں آج انہی ساحلوں پہ پھول
پھر جیسے موج میں یہ سمندر نہ آئے گا
میں جاں بلب ہوں ترکِ تعلق کے زہر سے
وہ مطمئن، کہ حرف تو اس پر نہ آئے گا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment