Thursday 20 November 2014

وہی راتوں کی بیداری ہے اب تک

وہی راتوں کی بیداری ہے اب تک
تمنا کا سفر جاری ہے اب تک
خیالِ ضبط، اور ترکِ تعلق
یہی پتھر بہت بھاری ہے اب تک
اکیلی چاندنی راتوں میں دل کو
سلگ اٹھنے کی بیماری ہے اب تک
ابھی پچھلے دنوں جو ہم پہ گزری
اسی رُت کا نشہ طاری ہے اب تک
میں ہجرت کر تو لوں چمن سے محسن
پر پرندوں سے میری یاری ہے اب تک

محسن نقوی​

No comments:

Post a Comment