Sunday, 23 November 2014

دیوار کھینچے جاتا ہے در کر نہیں رہا

دیوار کھینچے جاتا ہے، در کر نہیں رہا
کیا ہو گیا ہے دل کو، خبر کر نہیں رہا
تم جو شرر سا دیکھتے ہو میری راکھ میں
وہ شعلگی کی سمت سفر کر نہیں رہا
افسردۂ بہار ہوا ایسا یہ شجر
مدت گزر گئی ہے ثمر کر نہیں رہا
اک دلربا نے چھوڑ دئیے نازِ دلبری
رہتا تھا مجھ میں کوئی سنور کر، نہیں رہا
دل آئینہ سنبھال کے رکھ چھوڑا ہے ادھر
اچھا ہے کہ کوئی عکس اگر کر نہیں رہا
احوال کہنے آتے ہیں یارانِ خوش گماں
جیسے کہ زندگی میں بسر کر نہیں رہا
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کرتا ہوں اس سے بات
اپنی شکستگی سے میں ڈر کر نہیں رہا

طارق بٹ

No comments:

Post a Comment