Sunday 23 November 2014

اپنے اندر کے اندھیروں کو مرے ساتھ نہ کر

اپنے اندر کے اندھیروں کو مِرے ساتھ نہ کر
دل نہ مانے جو تِرا مجھ سے ملاقات نہ کر
اک اجالا سا رہے پچھلی ملاقاتوں کا
بدگمانی کی گھٹاؤں سے یہاں رات نہ کر
دیکھ! ڈھ جائیں گے یہ کچے گھروندے دل کے
اتنی شدت سے تو خدشات کی برسات نہ کر
کوئی معصوم سا جذبہ بھی سرِ کعبِ دل
ہو جسے اذن کہ پابندئ میقات نہ کر
خامشی کو ذرا تکمیلِ سخن کرنے دے
یہ فضا رہنے دے کچھ دیر، ابھی بات نہ کر

طارق بٹ

No comments:

Post a Comment