Sunday, 23 November 2014

کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی نہ رہتی، تو پھر ہم نہ رہتے
نشیمن نہ جلتا، نشانی تو رہتی
ہمارا تھا کیا، ٹھیک رہتے نہ رہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
کوئی نقش، اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے
مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ
کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے

ثاقب لکھنوی

No comments:

Post a Comment