کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی نہ رہتی، تو پھر ہم نہ رہتے
نشیمن نہ جلتا، نشانی تو رہتی
ہمارا تھا کیا، ٹھیک رہتے نہ رہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
کوئی نقش، اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے
مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ
کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے
ثاقب لکھنوی
No comments:
Post a Comment