Sunday 23 November 2014

ہجر کی شب نالہِ دل وہ صدا دینے لگے

ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
آئیے! حالِ دلِ بیمار، سنئیے، دیکھیے
کیا کہا زخموں نے، کیوں ٹانکے صدا دینے لگے
کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
سننے والے رو دئیے، سن کر مریضِ غم کا حال
دیکھنے والے ترس کھا کر دعا دینے لگے
جُز زمینِ کُوئے جاناں کچھ نہیں پیشِ نگاہ
جس کا دروازہ نظر آیا، صدا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
 جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے 
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صِلہ دینے لگے
آئینہ ہو جائے میرا عشق ان کے حسن کا
کیا مزا ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے
سینۂ سوزاں میں ثاقبؔ! گھٹ رہا ہے وہ دھواں
اف کروں تو آگ دنیا کی ہوا دینے لگے

ثاقب لکھنوی

No comments:

Post a Comment