Sunday 23 November 2014

فریب خود کو دیا خود ہی آہ و زاری کی

فریب خود کو دیا خود ہی آہ و زاری کی
مثال ہے کہیں ایسی فریب کاری کی
ہمارا عہدِ وفا حرف حرف روشن تھا
تمہارا عہدِ وفا شرطِ رازداری کی
ہوا ہے خوگرِ رنج و ملال، شہر تمام
سو ہم نے رسم اٹھا دی ہے غمگساری کی
زمینِ دل کو کرو آنسوؤں سے مت سیراب
کہ فصل ہو گی یہاں اور سوگواری کی
ہم اپنے آپ میں جل جل کے بجھ گئے آخر
دھواں کیا نہ کہیں اور نہ شعلہ باری کی
وہیں پہ حرفِ صداقت نہ ہو سکا روشن
جہاں بھی رکھی گئی شرط رازداری کی
ان آتی جاتی رُتوں سے غرض کسے کہ یہاں
سدا سے ایک ہی رُت ہے، سو بے قراری کی

طارق بٹ

No comments:

Post a Comment