کہیں تو چھوڑ گیا ہو گا کچھ نشاں اپنے
وہ اک فسانہ سا گزرا جو درمیاں اپنے
ہوئے جو گنگ بدلتی رتوں کی حیرت سے
وہ جذبے ہوں گے کبھی آپ ترجماں اپنے
یہ بے زباں تو نہیں ان کی خامشی کو سمجھ
نشان چھوڑ گئے ہیں جو رفتگاں اپنے
وہ آنے والے دنوں کا تِرے اثاثہ تھے
جو سارے خواب کیے تُو نے رائیگاں اپنے
خراج لیں گی تری خوش گمانیاں تجھ سے
کبھی جو آئینہ تجھ پر ہوئے زیاں اپنے
ہری رہے تِری شاخِ بدن خزاں میں بھی
کہ برگ و بار ہیں جس کے قصیدہ خواں اپنے
ملیں گے تجھ سے کسی اور رُت کی حیرت میں
ہزار وقت کا دریا ہو درمیاں اپنے
طارق بٹ
وہ اک فسانہ سا گزرا جو درمیاں اپنے
ہوئے جو گنگ بدلتی رتوں کی حیرت سے
وہ جذبے ہوں گے کبھی آپ ترجماں اپنے
یہ بے زباں تو نہیں ان کی خامشی کو سمجھ
نشان چھوڑ گئے ہیں جو رفتگاں اپنے
وہ آنے والے دنوں کا تِرے اثاثہ تھے
جو سارے خواب کیے تُو نے رائیگاں اپنے
خراج لیں گی تری خوش گمانیاں تجھ سے
کبھی جو آئینہ تجھ پر ہوئے زیاں اپنے
ہری رہے تِری شاخِ بدن خزاں میں بھی
کہ برگ و بار ہیں جس کے قصیدہ خواں اپنے
ملیں گے تجھ سے کسی اور رُت کی حیرت میں
ہزار وقت کا دریا ہو درمیاں اپنے
طارق بٹ
No comments:
Post a Comment