Sunday 23 November 2014

کہیں تو چھوڑ گیا ہو گا کچھ نشاں اپنے

کہیں تو چھوڑ گیا ہو گا کچھ نشاں اپنے
وہ اک فسانہ سا گزرا جو درمیاں اپنے
ہوئے جو گنگ بدلتی رتوں کی حیرت سے
وہ جذبے ہوں گے کبھی آپ ترجماں اپنے
یہ بے زباں تو نہیں ان کی خامشی کو سمجھ
نشان چھوڑ گئے ہیں جو رفتگاں اپنے
وہ آنے والے دنوں کا تِرے اثاثہ تھے
جو سارے خواب کیے تُو نے رائیگاں اپنے
خراج لیں گی تری خوش گمانیاں تجھ سے
کبھی جو آئینہ تجھ پر ہوئے زیاں اپنے
ہری رہے تِری شاخِ بدن خزاں میں بھی
کہ برگ و بار ہیں جس کے قصیدہ خواں اپنے
ملیں گے تجھ سے کسی اور رُت کی حیرت میں
ہزار وقت کا دریا ہو درمیاں اپنے

طارق بٹ

No comments:

Post a Comment