Sunday 23 November 2014

جیون راہ پہ چلتے چلتے مڑ کر دیکھا برسوں بعد

جیون راہ پہ چلتے چلتے مڑ کر دیکھا برسوں بعد
کیا کھویا کیا پایا ہم نے آج یہ جانا برسوں بعد
ایک ذرا سی دیر میں برسوں کی خاموشی ٹوٹ گئی
کس نے سمے کی جھیل میں پہلا پتھر پھینکا برسوں بعد
بیٹھے بیٹھے آج کسی کی یاد نے یوں انگڑائی لی
اشکوں کا بے موسم بادل ٹوٹ کے برسا برسوں‌ بعد
مدت بعد ملے ہم دونوں تو ایسا محسوس ہوا
وقت نے اک تصویر کے دو ٹکڑوں کو جوڑا برسوں بعد
رات مِرے کمرے میں‌ کوئی سایہ سا لہرایا تھا
نیند اڑی، آنکھوں نے شاید سپنا دیکھا برسوں‌بعد
تعبیروں کے کھوج میں‌ آخر اپنا آپ گنوا بیٹھے
انصرؔ اپنا ہر اک سپنا جھُوٹا نکلا برسوں بعد 

سید انصر

No comments:

Post a Comment