ٹوٹ کر جیسے دریا سے پیاسے ملیں
یوں ملیں جب کسی آشنا سے ملیں
جس نے سرکش ہوا کی کمر توڑ دی
آئیے اُس دیئے کی ضیاء سے ملیں
عشق کی انتہا دیکھنی ہے، تو آ
چل ذرا اہلِ کرب و بلا سے ملیں
سامنا تو کریں گفتگو ہو نہ ہو
آخری بار اُس بے وفا سے ملیں
شہر کی تنگ گلیوں سے باہر چلیں
حبس کا جال توڑیں، ہوا سے ملیں
عدل گاہیں نہیں، ظلم گاہیں ہیں وہ
سائلوں کو جہاں بس دلاسے ملیں
کیا عجب ایسی گھڑیاں بھی آٗئیں کبھی
لوگ ہم سے ملیں ہم خدا سے ملیں
یوں ملیں جب کسی آشنا سے ملیں
جس نے سرکش ہوا کی کمر توڑ دی
آئیے اُس دیئے کی ضیاء سے ملیں
عشق کی انتہا دیکھنی ہے، تو آ
چل ذرا اہلِ کرب و بلا سے ملیں
سامنا تو کریں گفتگو ہو نہ ہو
آخری بار اُس بے وفا سے ملیں
شہر کی تنگ گلیوں سے باہر چلیں
حبس کا جال توڑیں، ہوا سے ملیں
عدل گاہیں نہیں، ظلم گاہیں ہیں وہ
سائلوں کو جہاں بس دلاسے ملیں
کیا عجب ایسی گھڑیاں بھی آٗئیں کبھی
لوگ ہم سے ملیں ہم خدا سے ملیں
سید انصر
No comments:
Post a Comment