Sunday 23 November 2014

تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا

تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا
جا، اب تِرا خیال مجھے بھی نہیں رہا
تُو نے بھی موسموں کی پزیرائی چھوڑ دی
اب شوقِ ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا
میرا جواب کیا تھا تجھے بھی خبر نہیں
یاد اب تِرا سوال مجھے بھی نہیں رہا
جس بات کا خیال نہ تُو نے کیا کبھی
اُس بات کا خیال مجھے بھی نہیں رہا
توڑا ہے تُو نے جب سے مِرے دل کا آئینہ
اندازۂ جمال مجھے بھی نہیں رہا
باقیؔ میں اپنے فن سے بڑا پُرخلوص ہوں
اس واسطے زوال مجھے بھی نہیں رہا

باقی احمد پوری

No comments:

Post a Comment