رہِ وفا میں اذیت شناسائیاں نہ گئیں
کسی بھی رت میں ہماری اداسیاں نہ گئیں
تنی ہے ابر کی چادر بھی آسماں پہ، مگر
شعاعِ مہر، تیری بے لباسیاں نہ گئیں
تیرے قریب بھی رہ کر تجھے تلاش کروں
خدا خبر کہاں کونجوں کے قافلے اترے
سمندر کی طرف بھی تو پیاسیاں نہ گئیں
خزاں میں بھی تو مہکتی غزل پہن کے ملا
مزاجِ یار تیری خوش لباسیاں نہ گئیں
بسنت رت میں بھی مندر اداس تھے محسنؔ
کہ دیوتاؤں سے ملنے کو داسیاں نہ گئیں
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment