Wednesday 19 November 2014

رہ وفا میں اذیت شناسائیاں نہ گئیں

رہِ وفا میں اذیت شناسائیاں نہ گئیں
کسی بھی رت میں ہماری اداسیاں نہ گئیں
تنی ہے ابر کی چادر بھی آسماں پہ، مگر
شعاعِ مہر، تیری بے لباسیاں نہ گئیں
تیرے قریب بھی رہ کر تجھے تلاش کروں
محبتوں میں میری بدحواسیاں نہ گئیں
خدا خبر کہاں کونجوں کے قافلے اترے
سمندر کی طرف بھی تو پیاسیاں نہ گئیں
خزاں میں بھی تو مہکتی غزل پہن کے ملا
مزاجِ یار تیری خوش لباسیاں نہ گئیں
بسنت رت میں بھی مندر اداس تھے محسنؔ
کہ دیوتاؤں سے ملنے کو داسیاں نہ گئیں​

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment