بہار کیا، اب خزاں بھی مجھ کو گلے لگائے تو کچھ نہ پائے
میں برگِ صحرا ہوں، یوں بھی مجھ کو ہوا اڑائے تو کچھ نہ پائے
میں پستیوں میں پڑا ہوا ہوں، زمیں کے ملبوس میں جڑا ہوں
مثالِ نقشِ قدم پڑا ہوں، کوئی مٹائے، توکچھ نہ پائے
تمام رسمیں ہی توڑ دی ہیں، کہ میں نے آنکھیں ہی پھوڑ دی ہیں
عجیب خواہش ہے میرے دل میں، کبھی تو میری صدا کو سن کر
نظر جھکائے تو خوف کھائے، نظر اٹھائے تو کچھ نہ پائے
میں اپنی بے مائیگی چھپا کر، کواڑ اپنے کھلے رکھوں گا کہ
میرے گھر میں اداس موسم کی شام آئے تو کچھ نہ پائے
تو آشنا ہے نہ اجنبی ہے، ترا مرا پیار سرسری ہے
مگر یہ کیا رسمِ دوستی ہے، تو روٹھ جائے تو کچھ نہ پائے
اسے گنوا کر پھر اس کو پانے کا شوق دل میں تو یوں ہے محسنؔ
کہ جیسے پانی پہ دائرہ سا، کوئی بنائے تو کچھ نہ پائے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment