ہمارا کیا ہے
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح
اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہو گی
کہ جیسے تند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے، چمک کے کھو جائے
پھر اس کے بعد کسی کو نہ کچھ سجھائی دے
ہمارا کیا ہے، کہ ہم تو پسِ غبارِ سفر
اگر چلے بھی بس اتنی راہ طے ہو گی
کہ تیز ہواؤں کی ذرد مائل نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو ابھرے، ابھر کے مٹ جائے
پھر اس کے بعد نہ رستہ نہ رہگزار ملے
حدِ نگاہ تلک دشتِ بے کنار ملے
ہماری سمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلۂ دل و جاں جدا ہونے والے ہیں
بسے بسائے ہوئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانۂ ویراں اجڑنے والے ہیں
ہوا کا شور یہی ہے تو دیکھتے رہنا
ہماری عمر کے خیمے اکھڑنے والے ہیں
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment