Wednesday 19 November 2014

یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں

پچھلے عشق کی باتیں 

یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
جب آنکھ میں‌ خواب دمکتے تھے
جب دل میں داغ چمکتے تھے
جب پلکیں شہر کے رستوں میں 
اشکوں کا نور لٹاتی تھیں
جب سانسیں اجلے چہروں کی 
تن من میں‌ پھول سجاتی تھیں
جب چاند کی رم جھم کرنوں سے
سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے
جب ایک تلاطم رہتا تھا
اپنے بے انت خیالوں میں 
ہر عہد نبھانے کی رسمیں
جب عام تھیں ہم دل والوں میں
اب اپنے بھیگے ہونٹوں پر
کچھ جلتے بجھتے لفظوں کے
یاقوت پگھلتے رہتے ہیں
اب اپنی گم صم آنکھوں‌ میں
کچھ دھول ہے بکھری یادوں کی
کچھ گرد آلود سے موسم ہیں
اب دھوپ اگلتی سوچوں میں
کچھ پیماں جلتے رہتے ہیں
اب اپنے ویراں آنگن میں 
جتنی صبحوں کی چاندی ہے
جتنی شاموں کا سونا ہے
اس کو خاکستر ہونا ہے
اب یہ باتیں‌ رہنے دیجئے
جس عمر میں قصے بنتے ہیں 
اس عمر کا غم سہنے دیجئے
اب اپنی اجڑی آنکھوں میں 
جتنی روشن سی راتیں ہیں
اس عمر کی سب سوغاتیں ہیں
جس عمر کے خواب خیال ہوئے 
وہ پچھلی عمر تھی، بیت گئی
وہ عمر بتائے سال ہوئے
اب اپنی دید کے رستے میں 
کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں
کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
کچھ یادوں کی برساتیں ہیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment