Saturday 22 November 2014

کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا

کہیں سے لَوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
ستارے زیرِ قدم رات آئے ہیں کیا کیا 
نشیبِ ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے
فرازِ دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا
جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا
تمام زخمِ جگر، مسکرائے ہیں کیا کیا
پلٹ پلٹ کے ادھر دیکھتے جو دیکھتے تھے 
وہ سادگی پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا
میں کچھ سمجھ گیا اور کچھ سمجھ نہیں سکا
جھکی نظر نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا 
چَھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل 
وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا
اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے
کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا
کہیں اندھیرے سے مانوس نہ ہو جائے ادب
چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا
جو ہو لیا تھا مرے ساتھ چاند چوری سے 
اندھیرے راستے کے جگمگائے ہیں کیا کیا

کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment