بڑے غضب کا ہے یارو! بڑے عذاب کا زخم
اگر شباب ہی ٹھہرا میرے شباب کا زخم
ذرا سی بات تھی، کچھ آسماں نہ پھٹ پڑتا
مگر ہرا ہے ابھی تک تیرے جواب کا زخم
زمیں کی کوکھ ہی زخمی نہیں اندھیروں سے
ہے آسماں کے بھی سینے پہ آفتاب کا زخم
اسی کی چاہ گری میں گزر گئی اسرارؔ
تمام عمر کو کافی تھا اک شباب کا زخم
اگر شباب ہی ٹھہرا میرے شباب کا زخم
ذرا سی بات تھی، کچھ آسماں نہ پھٹ پڑتا
مگر ہرا ہے ابھی تک تیرے جواب کا زخم
زمیں کی کوکھ ہی زخمی نہیں اندھیروں سے
ہے آسماں کے بھی سینے پہ آفتاب کا زخم
میں سنگسار جو ہوتا تو پھر بھی خوش رہتا
کھٹک رہا ہے مگر دل میں اک گلاب کا زخماسی کی چاہ گری میں گزر گئی اسرارؔ
تمام عمر کو کافی تھا اک شباب کا زخم
اسرار ناروی
ابن صفی
No comments:
Post a Comment