Saturday 22 November 2014

کبھی قاتل کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے

کبھی قاتل، کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے
ہائے کیا چیز یہ سینے کی جلن ہوتی ہے
چھیڑئیے قصۂ اغیار ہی، ہم سن لیں گے
کچھ تو کہئے کہ خموشی سے گھٹن ہوتی ہے
یادِ ماضی ہے کہ نیزے کی انی، کیا کہئے
ذہن میں ایسی چبھن، ایسی چبھن ہوتی ہے
پھول کِھلتے ہی چمن آنکھ سے اوجھل ہو کر
ڈھونڈتا ہے اسے، جو رشکِ چمن ہوتی ہے
کتنی ہی زہر میں ڈوبی ہوئی رکھتی ہو زباں
پھر بھی وہ نازشِ گل، غنچہ دہن ہوتی ہے​

اسرار ناروی

No comments:

Post a Comment