Saturday 22 November 2014

دولت غم اپنے ہی اوپر ہم نے خوب لٹائی

دولتِ غم اپنے ہی اوپر ہم نے خوب لٹائی
سارے جہاں میں کوئی نہ ہو گا ہم سا حاتم طائی
ہم نے کہا تھا پچھتاؤ گے، جانے کیسی ساعت تھی
چھوٹے منہ سے نکلی ہوئی بھی بات بڑی کہلائی
فہم و فراست خواب کی باتیں جاگتی دنیا پاگل ہے
عقل کا سورج ماند ہوا ہے ذروں کی بن آئی
دریا کی گہرائی ناپو موتی ہاتھ لگیں گے
کیا پاؤ گے ناپ کے یارو جذبے کی گہرائی
اپنی ذات میں ڈوبنے والے ٹھہریں اونچے لوگ
سب کا درد بٹانے والے کہلائیں ہرجائی
سود و زیاں کے بازاروں میں ڈھونڈ رہا تھا اپنا مول
بِن بہروپ کسی نے قیمت دو کوڑی نہ لگائی​

اسرار ناروی

No comments:

Post a Comment