لہو سے خود کو سنوارے ہوئے ہیں سنگدلاں
صدف کی موت ہے زیبِ گلوئے ماہ وشاں
نہ کوہکن ہی رہا، اور نہ خسروی باقی
ہماری راہ میں حائل ہے اب بھی سنگِ گراں
ہوا ہے پیرِ خرابات کا بھی نشہ ہرن
چلی ہے جب سے حرم میں ہوائے عشقِ بتاں
محبتیں تو سرِ راہ مل گئی ہوتیں
ہمارے ذہن پہ طاری تھا خودسری کا دھواں
جو رات آئی تو آہٹ دکھوں کی ملنے لگی
غموں کی راہگزر ہے، کہ ہے یہ کاہکشاں
ابھی بھٹکتے رہو جسم و جاں کی وادی میں
تمہارے واسطے آئے کہاں سے سخت رواں
صدف کی موت ہے زیبِ گلوئے ماہ وشاں
نہ کوہکن ہی رہا، اور نہ خسروی باقی
ہماری راہ میں حائل ہے اب بھی سنگِ گراں
ہوا ہے پیرِ خرابات کا بھی نشہ ہرن
چلی ہے جب سے حرم میں ہوائے عشقِ بتاں
نفس نفس میں فروزاں ہے مشعلِ جاں سوز
کیا ہے جب سے اسے منزلِ نظر کا نشاںمحبتیں تو سرِ راہ مل گئی ہوتیں
ہمارے ذہن پہ طاری تھا خودسری کا دھواں
جو رات آئی تو آہٹ دکھوں کی ملنے لگی
غموں کی راہگزر ہے، کہ ہے یہ کاہکشاں
ابھی بھٹکتے رہو جسم و جاں کی وادی میں
تمہارے واسطے آئے کہاں سے سخت رواں
اسرار ناروی
ابن صفی
No comments:
Post a Comment