یہ شعر کی دیوی ہے بہروپ تو دھارے گی
باہر سے اجاڑے گی، اندر سے سنوارے گی
جب ٹوٹ گئے سمبندھ، پھر کون سے رشتے سے
میں کس کو صدا دوں گا، تُو کس کو پکارے گی
بوچھاڑ یہ بارش کی گزرے ہوئے لمحوں کو
کھڑکی سے دریچے سے، کمرے میں اتارے گی
کیا ہوش نہ آئے گا اس بحر تلاطم میں
جذبوں کی یہ طغیانی کیا جان سے مارے گی
لگتا ہے مجھے ساجدؔ معصوم انا میری
جس روز بھی ہارے گی اپنوں ہی سے ہارے گی
باہر سے اجاڑے گی، اندر سے سنوارے گی
جب ٹوٹ گئے سمبندھ، پھر کون سے رشتے سے
میں کس کو صدا دوں گا، تُو کس کو پکارے گی
بوچھاڑ یہ بارش کی گزرے ہوئے لمحوں کو
کھڑکی سے دریچے سے، کمرے میں اتارے گی
کیا ہوش نہ آئے گا اس بحر تلاطم میں
جذبوں کی یہ طغیانی کیا جان سے مارے گی
لگتا ہے مجھے ساجدؔ معصوم انا میری
جس روز بھی ہارے گی اپنوں ہی سے ہارے گی
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment