Thursday 20 November 2014

یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے

یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے
یہ محبتوں کا قصور ہے
تیرا آسمان قریب تھا
میرا آسمان تو دور ہے
مجھے کہہ رہی وہ عزم سے
مجھے تم کو پانا ضرور ہے
یہ میری شبیہہ نہیں، سنو
یہ تو میری آنکھوں کا نور ہے
تیرے عشق کا تیری روح کا
میری وحشتوں میں ظہور ہے
میری شاعری کی رگوں میں سب
تیری چاہتوں کا سرور ہے
مجھے اپنے رتبے کا علم ہے
مجھے اپنے غم کا شعور ہے
میری روح غم سے نڈھال ہے
میری ذات ہجر سے چور ہے

فرحت عباس شاہ 

No comments:

Post a Comment