Thursday 20 November 2014

بے سود ہمیں روزن دیوار سے مت دیکھ

بے سود ہمیں روزنِ دیوار سے مت دیکھ
ہم اجڑے ہوئے لوگ، ہمیں پیار سے مت دیکھ
پستی میں بھٹکنے کی ندامت نہ سوا کر
مڑ مڑ کے مجھے رفعتِ کہسار سے مت دیکھ
قیمت نہ لگا جذبۂ ایثارِ طلب کی
ہر شے کو فقط چشمِ خریدار سے مت دیکھ
پھر تجربۂ مرگ سے مت کر مجھے دوچار
میں ہجر زدہ ہوں مجھے اس پیار سے مت دیکھ
میں اور کہیں صاف دکھائی نہیں دوں گا
ہٹ کر مجھے آئینۂ اشعار سے مت دیکھ
گر دھوپ میں چلنا ہے تو اس شہرِ طلب کو
کاغذ پہ اگائے ہوئے اشجار سے مت دیکھ
اتنا تو بھرم رخمِ شناسائی کا رکھ لے
ہنس کر مِری جانب صفِ اغیار سے مت دیکھ

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment