Thursday 20 November 2014

چلو ظلمت کا یہ اندھا سفر آسان کر جائیں

چلو ظلمت کا یہ اندھا سفر آسان کر جائیں
کسی کے کام آئیں اپنی‌آنکھیں دان کر جائیں
بہت دن رہ لیے اس جسم میں، اب یہ ارادہ ہے
یہ گھر خالی کریں، اس شہر کو ویران کر جائیں
ہم ایسے لوگ ہیں، اپنی جدائی کے سمندر میں
ہر اک ساحل کو لے ڈوبیں، نگر سنسان کر جائیں
یہ صحرا زندگی کا ہے، یہاں سائے نہیں ملتے
بلا کی دھوپ ہے، یادوں کی چھتری تان کر جائیں
سوائے اس کے ان سے وقتِ رخصت اور کیا کہتے
ہمارے خواب لوٹا دیں، یہی احسان کر جائیں
متاعِ فن ہم اپنی جیب میں رکھتے تو ہیں ساجدؔ
چلو کچھ دل جلوں کے کیف کا سامان کر جائیں
ہمیں جو جانتے ہیں ان کی حیرت اور بڑھ جائے
نہیں جو جانتے، ان کو بھی ہم حیران کر جائیں

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment