Saturday, 22 November 2014

میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا

میں اس امید  پہ ڈوبا کہ تُو بچا لے گا
اب اس کے بعد میرا امتحان کیا لے گا
یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر ایک اپنا راستا لے گا
میں بجھ گیا تو ہمیشہ کو بجھ ہی جاؤں گا
کوئی چراغ نہیں ہوں جو پھر جلا لے گا
کلیجا چاہئے دشمن سے دشمنی کے لیے
جو بے عمل ہے وہ بدلہ کسی سے کیا لےگا
ہزار توڑ کے آ جاؤں اس سے رشتہ وسیمؔ
میں جانتا ہوں وہ جب چاہے گا، بلا لے گا

وسیم بریلوی

No comments:

Post a Comment