میں اس امید پہ ڈوبا کہ تُو بچا لے گا
اب اس کے بعد میرا امتحان کیا لے گا
یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر ایک اپنا راستا لے گا
میں بجھ گیا تو ہمیشہ کو بجھ ہی جاؤں گا
کلیجا چاہئے دشمن سے دشمنی کے لیے
جو بے عمل ہے وہ بدلہ کسی سے کیا لےگا
ہزار توڑ کے آ جاؤں اس سے رشتہ وسیمؔ
میں جانتا ہوں وہ جب چاہے گا، بلا لے گا
وسیم بریلوی
No comments:
Post a Comment