مجھے بجھا دے، مِرا دور مختصر کر دے
مگر دِیے کی طرح مجھ کو معتبر کر دے
مری تلاش کو بے نام و بے سفر کر دے
میں تیرا راستہ چھوڑوں تو دربدر کر دے
بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کی عمر ہی کتنی
جدائیوں کی یہ راتیں تو کاٹنی ہوں گی
کہانیوں کو کوئی کیسے مختصر کر دے
ترے خیال کے ہاتھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں
کہ جیسے بچہ کتابیں اِدھر اُدھر کر دے
وسیمؔ! ؔکس نے کہا تھا کہ یوں غزل کہہ کر
یہ پھول جیسی زمیں آنسوؤں سے تر کر دے
وسیم بریلوی
No comments:
Post a Comment