Sunday 23 November 2014

وہ جو ہمرہی کا غرور تھا وہ سواد راہ میں جل بجھا

وہ جو ہمرہی کا غرور تھا وہ سواد راہ میں جل بجھا
تو ہوا کے عشق میں گھل گیا میں زمیں کی چاہ میں جل بجھا
یہ جو شاخ لب پہ ہجومِ رنگِ صدا کھلا ہے گلی گلی
کہیں کوئی شعلۂ بے نوا کسی قتل گاہ میں جل بجھا
جو کتابِ عشق کے باب تھے تِری دسترس میں بکھر گئے
وہ جو عہد نامۂ خواب تھا وہ میری نگاہ میں جل بجھا
ہمیں یاد ہو تو بتائیں بھی ذرا دھیان ہو تو سنائیں بھی
کہ وہ دل جو محرمِ راز تھا کہاں رسم و راہ میں جل بجھا
کہیں بےنیازی کی لاگ میں کہیں احتیاط کی آگ میں
تجھے میری کوئی خبر بھی ہے مِرے خیر خواہ میں جل بجھا
مِری راکھ سے نئی روشنی کی حکایتوں کو سمیٹ لے
میں چراغ صبح وصال تھا تِری خیمہ گاہ میں جل بجھا
وہ جو حرف تازہ مثال تھے انہیں جب سے تو نے بھلا دیا
تِری بزمِ ناز کا بانکپن کسی خانقاہ میں جل بجھا

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment