Sunday 23 November 2014

زخم احساس اگر ہم بھی دکھانے لگ جائیں

زخمِ احساس اگر ہم بھی دکھانے لگ جائیں
شہر کے شہر اسی غم میں ٹھکانے لگ جائیں
جس کو ہر سانس میں محسوس کِیا ہے ہم نے
ہم اسے ڈھونڈنے نکلیں تو زمانے لگ جائیں
ابر سے اب کے ہواؤں نے یہ سازش کی ہے
خشک پیڑوں پہ ثمر پھر سے نہ آنے لگ جائیں
کاش، اب کے تِرے آنے کی خبر سچی ہو
ہم منڈیروں سے پرندوں کو اڑانے لگ جائیں
شعر کا نشہ جو اترے کبھی اک پَل کے لئے
زندگی ہم بھی تِرا قرض چکانے لگ جائیں
سوچتے یہ ہیں تِرا نام لکھیں آنکھوں پر
چاہتے یہ ہیں تجھے سب سے چھپانے لگ جائیں
اس طرح دن کے اجالے سے ڈرے لوگ سلیمؔ
شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھانے لگ جائیں

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment