Saturday 22 November 2014

کنارے تاج کے رقصاں جسے پانی میں دیکھا ہے

کنارے تاج کے رقصاں جسے پانی میں دیکھا ہے
اسے ہم نے پریشاں تیری پیشانی میں دیکھا ہے
ڈراتا ہے اسے ناداں زمانہ موج و طوفاں سے
وہ جس نے خواب ہی ساحل کے طغیانی میں دیکھا ہے
جو منظر اہلِ بِینش آج دنیا کو دِکھاتے ہیں
میری آنکھوں نے اس کو دورِ نادانی میں دیکھا ہے
ہزاروں زخم کھا کر بھی دھڑکتا ہے دلِ وحشی
غضب کا حوصلہ اس دشمنِ جانی میں دیکھا ہے
تصور میں بھی تجھ سے مجھ کو گھُل مِلنے نہیں دیتی
حیا کو اس جگہ بھی تیری دربانی میں دیکھا ہے
لبوں سے چھِن گئی سرخی، اڑی رخسار سے رنگت
جلیلؔ اس شوخ کو جو تم نے حیرانی میں دیکھا ہے

جلیل نظامی

No comments:

Post a Comment