Saturday 22 November 2014

بات کم کیجے ذہانت کو چھپاتے رہیے

بات کم کیجے، ذہانت کو چھپاتے رہئے
اجنبی شہر ہے یہ، دوست بناتے رہئے
دشمنی لاکھ سہی، ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے، ہاتھ ملاتے رہئے
یہ تو چہرہ کا فقط عکس ہے تصویر نہیں
اس پہ کچھ رنگ ابھی اور چڑھاتے رہئے
غم ہے آوارہ، اکیلے میں بھٹک جاتا ہے
جس جگہ رہیے، وہاں ملتے ملاتے رہئے
جانے کب چاند بکھر جائے گھنے جنگل میں
اپنے گھر کے در و دیوار سجاتے رہئے

ندا فاضلی

No comments:

Post a Comment