Saturday, 22 November 2014

شام بے کیف سہی شام ہے ڈھل جائے گی

شام بے کیف سہی، شام ہے ڈھل جائے گی
دن بھی نکلے گا، طبیعت بھی سنبھل جائے گی
اس قدر تیز ہے دل میں مِرے امید کی لَو
نا امیدی مِرے پاس آئی تو جل جائے گی
نرم شانوں پہ نہ بکھراؤ گھنیری زلفیں
ان گھٹاؤں سے شبِ تار دہل جائے گی
مست آنکھوں کے دریچوں سے نہ جھانکا کیجے
جام ٹکرائیں گے، میخواروں میں چل جائے گی
بن سنور کر مجھے سمجھانے نہ آؤ، ورنہ
پھر تمنائے دلِ زار مچل جائے گی
ماہِ نَو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی
اتنا سج دھج کے عیادت کو نہ آیا کیجے
ورنہ کچھ سوچ کے یہ جان نکل جائے گی
کیوں پریشاں ہو شبِ ہجر کی آمد پہ جلیل
گردش وقت ہے، آج آئی ہے کل جائے گی

جلیل نظامی


No comments:

Post a Comment