ہونٹوں پہ تبسم کی ادا کھیل رہی ہے
دو سرخ گلابوں سے صبا کھیل رہی ہے
دزدیدہ نگاہوں میں کئی تیر سجے ہیں
ابرو کی کمانوں میں قضا کھیل رہی ہے
سمجھو نہ الجھ بیٹھے ہیں رخسار سے گیسو
سورج کی تمازت سے گھٹا کھیل رہی ہے
جب دل میں مہکتی ہے تِری یاد کی خوشبو
لگتا ہے کہ، گنبد میں صدا کھیل رہی ہے
میں ہوں کہ وہی چال سمجھنے سے ہوں قاصر
قسمت ہے کہ، ہر کھیل نیا کھیل رہی ہے
میں ناز سے منزِل کی طرف دیکھ رہا ہوں
جذبات سے مخلوقِ خدا کھیل رہی ہے
یہ ناموری تیری جلیلؔ! اس کے ہے دَم سے
سوکھے ہوئے جس لب پہ دعا کھیل رہی ہے
دو سرخ گلابوں سے صبا کھیل رہی ہے
دزدیدہ نگاہوں میں کئی تیر سجے ہیں
ابرو کی کمانوں میں قضا کھیل رہی ہے
سمجھو نہ الجھ بیٹھے ہیں رخسار سے گیسو
سورج کی تمازت سے گھٹا کھیل رہی ہے
جب دل میں مہکتی ہے تِری یاد کی خوشبو
لگتا ہے کہ، گنبد میں صدا کھیل رہی ہے
میں ہوں کہ وہی چال سمجھنے سے ہوں قاصر
قسمت ہے کہ، ہر کھیل نیا کھیل رہی ہے
میں ناز سے منزِل کی طرف دیکھ رہا ہوں
جذبات سے مخلوقِ خدا کھیل رہی ہے
یہ ناموری تیری جلیلؔ! اس کے ہے دَم سے
سوکھے ہوئے جس لب پہ دعا کھیل رہی ہے
جلیل نظامی
No comments:
Post a Comment