Saturday 22 November 2014

ہونٹوں پہ تبسم کی ادا کھیل رہی ہے

ہونٹوں پہ تبسم کی ادا کھیل رہی ہے
دو سرخ گلابوں سے صبا کھیل رہی ہے
دزدیدہ نگاہوں میں کئی تیر سجے ہیں
ابرو کی کمانوں میں قضا کھیل رہی ہے
سمجھو نہ الجھ بیٹھے ہیں رخسار سے گیسو
سورج کی تمازت سے گھٹا کھیل رہی ہے
جب دل میں مہکتی ہے تِری یاد کی خوشبو
لگتا ہے کہ، گنبد میں صدا کھیل رہی ہے
میں ہوں کہ وہی چال سمجھنے سے ہوں قاصر
قسمت ہے کہ، ہر کھیل نیا کھیل رہی ہے
میں ناز سے منزِل کی طرف دیکھ رہا ہوں
جذبات سے مخلوقِ خدا کھیل رہی ہے
یہ ناموری تیری جلیلؔ! اس کے ہے دَم سے
سوکھے ہوئے جس لب پہ دعا کھیل رہی ہے

جلیل نظامی​

No comments:

Post a Comment