Saturday 22 November 2014

بدگمانی چھوڑئیے دل کو کشادہ کیجیۓ

بدگمانی چھوڑئیے، دل کو کشادہ کیجیے
فائدہ پہنچائیے، یا استفادہ کیجیے
دوستو! دستِ عدو کیا ہے، خدا مل جائے گا
آپ پہلے دل سے ملنے کا ارادہ کیجیے
منزلِ دل سے لپٹ جائیں گے خود ہی فاصلے
چشم و لب کا آپ اک ہموار جادہ کیجیے
نفرتوں کی آندھیوں سے بجھ رہی ہے شمعِ جاں
لَو محبت کی بہت کم ہے زیادہ کیجیے
آپ کے وعدوں پہ قائم ہے کسی کی زندگی
دھیان میں رکھیے اسے جب کوئی وعدہ کیجیے
اس قدر رنگیں، کتابِ زندگی اچھی نہیں
کم سے کم کچھ آخری صفحوں کو سادہ کیجیے
ورنہ مٹ جائیں گے سارے داغ سینے کے جلیلؔ
گاہے گاہے قصہ غم کا اعادہ کیجیے

جلیل نظامی

No comments:

Post a Comment