مدت گزری مٹ گئی ہستی زنداں میں دلگیروں کی
رات ڈھلے اب بھی آتی ہیں آوازیں زنجیروں کی
عشق کا سینا چھلنی ہو گا، کڑکے گی ابرو کی کماں
سنتے ہیں اب بارش ہو گی شہروں شہروں تیروں کی
آگ، دھواں اور خون کے قصے کہتی ہے رنگوں کی زباں
شہرِ ستم میں جب بھی نمائش ہوتی ہے تصویروں کی
یاں بھی جلنا، واں بھی جلنا، ہم جیسوں کو چین کہاں
جنت بھی دنیا والوں کی، دنیا بھی ہے امیروں کی
پتھر جیسے دل والے بھی، خون کے آنسو روتے ہیں
فرصت ہو تو بام سے تُو بھی، حالت دیکھ فقیروں کی
رمزؔ بڑا فنکار ہے، لیکن اس کے فن کو سمجھے کون
کانچ کے ٹکڑے ایسے چمکے قیمت گھٹ گئی ہیروں کی
رات ڈھلے اب بھی آتی ہیں آوازیں زنجیروں کی
عشق کا سینا چھلنی ہو گا، کڑکے گی ابرو کی کماں
سنتے ہیں اب بارش ہو گی شہروں شہروں تیروں کی
آگ، دھواں اور خون کے قصے کہتی ہے رنگوں کی زباں
شہرِ ستم میں جب بھی نمائش ہوتی ہے تصویروں کی
یاں بھی جلنا، واں بھی جلنا، ہم جیسوں کو چین کہاں
جنت بھی دنیا والوں کی، دنیا بھی ہے امیروں کی
پتھر جیسے دل والے بھی، خون کے آنسو روتے ہیں
فرصت ہو تو بام سے تُو بھی، حالت دیکھ فقیروں کی
رمزؔ بڑا فنکار ہے، لیکن اس کے فن کو سمجھے کون
کانچ کے ٹکڑے ایسے چمکے قیمت گھٹ گئی ہیروں کی
رمز عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment