Saturday 22 November 2014

مدت گزری مٹ گئی ہستی زنداں میں دلگیروں کی

مدت گزری مٹ گئی ہستی زنداں میں دلگیروں کی
رات ڈھلے اب بھی آتی ہیں آوازیں زنجیروں کی
عشق کا سینا چھلنی ہو گا، کڑکے گی ابرو کی کماں
سنتے ہیں اب بارش ہو گی شہروں شہروں تیروں کی
آگ، دھواں اور خون کے قصے کہتی ہے رنگوں کی زباں
شہرِ ستم میں جب بھی نمائش ہوتی ہے تصویروں کی
یاں بھی جلنا، واں بھی جلنا، ہم جیسوں کو چین کہاں
جنت بھی دنیا والوں کی، دنیا بھی ہے امیروں کی
پتھر جیسے دل والے بھی، خون کے آنسو روتے ہیں
فرصت ہو تو بام سے تُو بھی، حالت دیکھ فقیروں کی
رمزؔ بڑا فنکار ہے، لیکن اس کے فن کو سمجھے کون
کانچ کے ٹکڑے ایسے چمکے قیمت گھٹ گئی ہیروں کی

رمز عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment