Saturday 22 November 2014

تصویر ذہن میں نہیں تیرے جمال کی

تصویر ذہن میں نہیں تیرے جمال کی
آباد ہو کے لٹ گئی دنیا خیال کی
دامن کشِ حواس ہے وحشت خیال کی
کتنی جنوں اثر ہے بہار اب کے سال کی
میں صورتِ چراغ جلا اور بجھ گیا
لایا تھا عمر مانگ کے شامِ وصال کی
یوں طُورکو جلا دیا برقِ جمال نے
پتھر میں رہ نہ جائے تجلی جمال کی
پہلے خیال، خواب سے تھا طالبِ سکوں
اب خواب ڈھونڈتا ہے پناہیں خیال کی
موسیٰ کو لاؤ، طور پر آ جاؤ دیکھ لو
اب بھی یہیں کہیں ہے تجلی جمال کی
جلوت میں ہوں، تو شاکئ ہنگامۂ ہجوم
خلوت میں ہوں، تو ساتھ ہے دنیا خیال کی
تاریک تھی رہِ طلب، آزردہ تھے کلیمؑ
بجلی نے آ کے شمع جلا دی جمال کی
چھوڑ آئی لامکاں کو بھی پیچھے تِری تلاش
اپنی حدوں سے بڑھ گئی وسعت خیال کی
سیمابؔ، یہ شباب، یہ ابر، اور یہ بہار
انگڑائیاں ہیں یہ صرف نشاطِ خیال کی

سیماب اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment