Saturday 22 November 2014

یہ خود کو دیکھتے رہنے کی ہے جو خو مجھ میں

یہ خود کو دیکھتے رہنے کی ہے جو خو مجھ میں
چھپا ہوا ہے کہیں وہ شگفتہ رو مجھ میں
مہ و نجوم کو تیری جبیں سے نسبت دوں
اب اس قدر بھی نہیں عادتِ غلو مجھ میں
تغیراتِ جہاں، دل پہ کیا اثر کرتے
ہے تیری اب بھی وہی شکل ہو بہو مجھ میں
رفو گروں نے عجب طبع آزمائی کی
رہی سرے سے نہ گنجائشِ رفو مجھ میں
وہ جس کے سامنے میری زباں نہیں کھلتی
اسی کے ساتھ تو ہوتی ہے گفتگو مجھ میں
خدا کرے کہ اسے دل کا راستہ مل جائے
بھٹک رہی ہے کوئی چاپ کو بہ کو مجھ میں
اس ایک زہرہ جبیں کے طفیل جاری ہے
تمام زہرہ جبینوں کی جستجو مجھ میں
نہیں پسند مجھے شعر و شاعری کرنا
کبھی کبھار بس اٹھتی ہے ایک ہو مجھ میں
میں زندگی ہوں مجھے اس قدر نہ چاہ شعورؔ
مسافرانہ اقامت گزیں ہے تو مجھ میں

انور شعور

No comments:

Post a Comment