خواب تھا دیدۂ بیدار تلک آیا تھا
دشت بھٹکتا ہوا دیوار تلک آیا تھا
اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دشمن میرے کردار تلک آیا تھا
اتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ
زخم خود چل کے عزادار تلک آیا تھا
عشق کچھ سوچ کے خاموش رہا تھا ورنہ
حسن بِکتا ہوا بازار تلک آیا تھا
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment