صحرا جو پکاریں بھی تو سن کر نہیں آتے
اب اہلِ جنوں شہر سے باہر نہیں آتے
وہ کال پڑا ہے تجارت گاہِ دل میں
دستاریں تو میسر ہیں مگر سر نہیں آتے
وہ لوگ ہی قدموں سے زمیں چھین رہے ہیں
اِک تم کہ تمہارے لیے میں بھی، میری جان بھی
اِک میں، کہ مجھے تم بھی میسر نہیں آتے
اِس شان سے لوٹے ہیں گنوا کر دل و جان ہم
اِس طَور تو ہارے ہوئے لشکر نہیں آتے
کوئی تو خبر لے میرے دشمنِ جان کی
کچھ دن سے میرے صحن میں پتھر نہیں آتے
دل بھی کوئی آسیب کی نگری ہے کہ محسنؔ
جو اِس سے نکل جاتے ہیں مُڑ کر نہیں آتے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment