Wednesday 19 November 2014

شامل مرا دشمن صف یاراں میں ‌رہے گا

شامل مرا دشمن صفِ یاراں میں ‌رہے گا
یہ تیر بھی پیوست رگِ جاں میں رہے گا
اک رسمِ جنوں اپنے مقدر میں رہے گا
اک چاک سدا اپنے گریباں میں رہے گا
اک اشک ہے آنکھوں میں سو چمکے گا کہاں تک
یہ چاند زدِ شامِ غریباں میں رہے گا 
میں تجھ سے بچھڑ کر کہاں تجھ سے جدا ہوں 
تو خواب صف دیدۂ گریاں میں رہے گا
رگوں کی کوئی رت تری خوشبو نہیں لائی
یہ داغ بھی دامانِ بہاراں میں رہے گا
اب کے بھی گزر جائیں گے سب وصل کے لمحے
مصروف کوئی وعدہ و پیماں میں رہے گا
وہ حرف جنوں کہہ نہ سکوں جو کہوں بھی
اک راز کی صورت دلِ امکاں میں رہے گا
محسن میں حوادث کی ہواؤں میں گھرا ہوں
کیا نقش قدم دشت و بیاباں میں رہے گا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment