Wednesday, 19 November 2014

تعزیر اہتمام چمن کون دے گیا

تعزیرِ اہتمامِ چمن کون دے گیا
مجھ کو گلاب جیسا کفن کون دے گیا
دیکھے جو خد و خال تو سوچا ہے بارِہا
صحرا کی چاندنی کو بدن کون دے گیا
میری جبیں کی ساری لکیریں تیری عطا
لیکن تِری قبا کو شکن کون دے گیا
تیرے ہنر میں خلقتِ خوشبو سہی، مگر
کانٹوں کو عمر بھر کی چبھن کون دے گیا
جنگل سے پوچھتی ہے ہواؤں کی برہمی
جگنو کو تیرگی میں کرن کون دے گیا
کس نے بسائے آنکھ میں اشکوں کے قافلے
بے گھر مسافروں کو وطن کون دے گیا
تجھ سے تو ہر پَل کی مسافت کا ساتھ تھا
میرے بدن کو اتنی تھکن کون دے گیا
توڑا ہے کس نے نوکِ سناں پر سکوتِ صبر
لب بستگی کو تابِ سخن کون دے گیا
محسنؔ وہ کائناتِ غزل ہے اسے بھی دیکھ
مجھ سے نہ پوچھ مجھ کو یہ فن کون دے گیا​

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment