Wednesday, 19 November 2014

بھول جانا بھی اسے یاد بھی کرتے رہنا

بھول جانا بھی اسے یاد بھی کرتے رہنا
اچھا لگتا ہے اسی دھن میں بکھرتے رہنا
ہجر والوں سے بڑی دیر سے سیکھا ہے ہم نے
زندہ رہنے کے لئے جاں سے گزرتے رہنا
کیا کہوں کیوں میری نیندوں میں‌ خلل ڈلتا ہے
چاند کے عکس کا پانی میں اترتے رہنا
میں اگر ٹوٹ بھی جاؤں تو پھر آئینہ ہوں
تم میرے بعد بہر طور سنورتے رہنا
گھر میں رہنا ہے تو بکھرے ہوئے سائے چن کر
زخم دیوار و بام کے بھرتے رہنا
شام کو ڈوبتے سورج کی ہے عادت محسنؔ
صبح ہوتے ہی میرے ساتھ ابھرتے رہنا​

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment