بھول جانا بھی اسے یاد بھی کرتے رہنا
اچھا لگتا ہے اسی دھن میں بکھرتے رہنا
ہجر والوں سے بڑی دیر سے سیکھا ہے ہم نے
زندہ رہنے کے لئے جاں سے گزرتے رہنا
کیا کہوں کیوں میری نیندوں میں خلل ڈلتا ہے
میں اگر ٹوٹ بھی جاؤں تو پھر آئینہ ہوں
تم میرے بعد بہر طور سنورتے رہنا
گھر میں رہنا ہے تو بکھرے ہوئے سائے چن کر
زخم دیوار و بام کے بھرتے رہنا
شام کو ڈوبتے سورج کی ہے عادت محسنؔ
صبح ہوتے ہی میرے ساتھ ابھرتے رہنا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment