Saturday, 22 November 2014

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا

دل سے خیالِ دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
تم کو ہزارشرم سہی، مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
مے تند و ظرفِ حوصلۂ اہلِ بزم تنگ
ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا
راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی، مگر
دشمن کو، ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا
بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ
ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا
مقصود اپنا کچھ نہ کھلا، لیکن اس قدر
یعنی، وہ ڈھونڈھتے ہیں کہ پایا نہ جائے گا
جھگڑوں میں اہلِ دِیں کے، نہ حالیؔ پڑیں بس آپ
قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا

الطاف حسین حالی

No comments:

Post a Comment